چنوں منوں صرف دو چوزے نہیں تھے دو زمانے تھے۔ مِن مِن کرتا منوں گئے وقتوں پر ماتم کرتا رہتا تھا۔ اس کی مِن مِن اب منمناہٹ میں بدل چکی تھی۔وہ گزرے وقت کو ایسا کھیت سمجھتا جس پر اسے ہر موسم کی فصل کاشت کرنے کی آزادی تھی۔اسے حال سے سروکار ہی نہ تھا وہ ماضی کو بہترین روپ دینے کے جتن کرتا رہتا۔اسے کون سمجھاتا کہ ایک دن وہ بھی ماضی ہو گا اور وہ حال جو آج اس کی نظر کرم سے اوجھل ہے اسے آئندہ آنے والے گفتار کی تجرباتی بھٹی سے گزاریں گے اور بہترین کا بورڈ لگا دیں گے۔ اس کی ہر تان "ہائیے وہ زمانا " پر ختم ہوتی۔ ایسا زمانا جسے اس نے صرف سن رکھا تھا ، دیکھا کبھی نہ تھا۔چن چن کرتا چنوں نئی تہذیب کے راگ الاپتا دکھائی پڑتا۔وہ رینگتے ہوئے ہمیشہ ایک ہی نعرہ لگاتا۔ " دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا "۔ منوں تعویذ گنڈے کی افادیت پر لیکچر دیتا اور چنوں ڈھونڈ ڈھونڈ کرجدید دور کی افادیت پر ویڈیوز کے فائدے تلاش کرتا۔ چنوں جان چکا تھا کہ اب کون تعویذ باندھے ، تکیوں میں لونگ سلوائے ، چینی پر پھونکوں کی کاشت کاری کرے۔ مرغیاں اور ریشم جلانے کا کھیل اس کی بساط سے باہر تھا۔ کاغذ کے تعویذات کے احتیاطی عمل اور ان کے اثرات دیکھنے اور برتنے میں بے اثر نظر آتے۔البتہ گانٹھے گئے موم جامے میں تعویذ بھی محفوظ رہتے اوراس کے اثرات بھی۔
کب مسخر یہ حسیں ہوتے ہیں
سب یہ بیکار ہے گنڈا تعویذ
نہ ہوا یار کا غصہ ٹھنڈا
بارہا دھو کے پلایا تعویذ ( حفیظ جونپوری )
لیکن ویڈیوز کے فائدے ان کے نشر ہونے سے پہلے ہی جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتے اور اثرات ان سب تک پہنچ جاتے جن تک ویڈیوز کی رسائی بھی نہ تھی۔سو چنوں کا دعوی بجا ٹھہرا
وہ بت پری ہے نکالیں نہ بال و پر تعویذ
ہیں دونوں بازو پہ اس کے ادھر ادھر تعویذ
وہ ہم نہیں جو ہوں دیوانے ایسے کاموں سے
کسے پلاتے ہو پانی میں گھول کر تعویذ
کہاں وہ لوگ کہ جن کے عمل کا شہرا تھا
کچھ اس زمانے میں رکھتا نہیں اثر تعویذ( احمد حسین مائل )
زباں بندی کے تعویذ میں ابھی ڈورا بھی نہ ڈالا جاتا کہ ویڈیوز اجلوا کر سب کی زبان کے ساتھ ساتھ آنکھیں بھی کھول دیتیں ۔اب منوں لاکھ مِن مِن کرتا ، تیر تو کمان نکل چکا ہوتا۔ کسی بھی فلسفے سے یہ روایت و جدت کی گتھیاں سلجھنے کا نام ہی نہ لیتیں. جن کے پاس خبروں کے چٹ پٹے مصالحے نہ ہوتے وہ انسان تو ایک طرف ، پورا چینل ہی فلاپ ہو جاتا۔لوگ ایک دوسرے سے پیغامات میں نئے زمانے اور نئی خبریں دریافت کرتے پائے جاتے۔اس آگہی کے بغیر وہ خود کو ڈھور ڈنگر سے زیادہ نہ سمجھتے۔زیب داستاں کے لیے بڑھوتی کیلشیم , پروٹین اور وٹامن سے کہیں زیادہ اہم تھی۔مِن مِن کرتا منوں کبھی تو تعویذات کے جامے بدلتا اور کبھی کسی تعویذ کے اثرات جامے میں رکھنے کی کوشش کرتا۔کبھی کبھار تو ان اثرات کی پختگی کے لیے لوٹ پوٹ بھی ہو جاتا اور غیبی امداد کے نام پر سادہ لوح لوگوں کو بے وقوف بناتا۔لیکن پھونک والے پیروں کے سامنے وہ جدت کا راگ الاپنے لگتا۔اس نے ایسی ویڈیوز بھی دیکھ رکھی تھیں جن کے ختم ہونے سے پہلے وہ باپ بن سکتا تھا۔آن لائن بکرے یا بکریاں ذبح کرسکتا تھا۔یہ گناہ و ثواب سے بالاتر دنیا تھی۔ فٹ پاتھ پر بیٹھے نجومی کی پیشین گوئیوں کے برعکس یہ بات سچ ثابت ہو گئی اور منوں کے کاندھوں پر مہنگائی کا دس کلو وزن مذید بڑھ گیا اور اس کی منمناہٹ ماند پڑنے لگی۔ دوسری طرف چنوں کمیٹی ویڈیوز بناتی جا رہی تھی۔ایسی ویڈیوز جن کے آخر تک دیکھنے سے شیف ، بیوٹیشنز ، حکیم ، ڈاکٹر، سرجن ،استاد اور ہر شعبہ کے ماہرین کا ایک طوفان برپا تھا۔پانچ منٹ میں رنگ گورا کرنے ، دس منٹ میں اولاد نرینہ کا تحفہ پانے ، تین منٹ میں پرائی عورتوں کو اپنی محبت میں پاگل کرنے ، چار منٹ میں شادی شدہ مرد کو اپنے جال میں باندھنے ، چھ منٹ میں محبوب کو مچھلی کی طرح تڑپاتے قدموں میں لانے ، سات منٹ میں شب دیگ بنانے ، آٹھ منٹ میں کھوئی جوانی واپس حاصل کرنے کے تیر بہدف نسخے لاکھوں پیروکاروں کو انگیج رکھے ہوئے تھے۔
یہ طوفان بلاخیز تھا اور سب بہائے لیے جاتا تھا ۔ کئی ایسی ویڈیوز بھی موجود تھیں جن کے ختم ہونے سے پہلے پہلے سینکڑوں لوگ مشرف بہ اسلام ہو چکے ہوتے اور گناہوں سے توبہ کرتے زار زار روتے پائے گئے۔ یہ ویڈیوزایسے کواکب تھے جو تھے کچھ اور نظر کچھ آتے تھے۔ نئے سال کے وعدوں میں اب ویڈیوز کا بھی ایک خانہ ہے جو بھرے ہوئے کنوئیں کی صورت جاری رہے گا۔ سنا گیا ہے کہ اب ماہرین کو ایسی ویڈیوز بنانے کے مشن پر لگایا گیا ہے۔ جس کے ختم ہونے سے پہلے پہلے جنت اور دوزخ کی ٹکٹ بھی مل سکیں گی۔ دیکھتے ہیں تعویذ کے زیر اثر محبوب قدموں میں آتا ہے یا ویڈیوز کے ذریعہ زبان بندی ممکن ہو گی۔