آج میں نے دور سے انہیں دیکھا تھا ۔ بیٹی کو ہو ا میں اچھالتے ہوئے ۔ ان کے خد و خال بہت نمایاں ہو رہے تھے ۔ وہ ان کے کانوں کے ارد گرد بال سفید کب ہوئے تھے؟ ۔ چہرے کی رنگت گہری نہ جانے کب ہوئی تھی ؟ ۔ہاتھوں کی نسیں اتنی نمایاں نہ جانے کب ہوئی تھیں ؟ ۔ میں تو روزانہ چائے کا کپ انہیں اسی ہاتھ میں پکڑاتی ہوں ۔ مجھے یہ تبدیلی جو شائد کسی طوفان کی مانند طلاطم خیز تھی ۔ اس کی جنبش بھی محسوس کیوں نہیں ہوئی تھی ۔۔ بیٹی کے ساتھ کھیلتے کھیلتے یکدم بارش شروع ہو گئی تھی ۔ جب انہوں نے یکدم اسے باہوں میں بھر لیا تھا اور جلدی جلدی اندر آ گئے تھے ۔۔ ایسے میں وہ بالکل بھیگ گئے ۔ ان کے چہرے ماتھے اور بالوں پر کچھ بوندیں بیٹھ گئیں اور جب خشک ہوئیں تو جیسے ایک نشان سا چھوڑ گئیں ۔۔۔ وہ نشان جو ا یک باپ کی خوبصورت گرم ٹوپی کی اندرونی سطح پرہمیشہ موجود ہوتے ہیں جنہیں وہ ساری زندگی بڑی مہارت کے ساتھ اپنی اولاد سے چھپا کر رکھتا ہے۔