معاشرے میں بڑھتی ہوئی اخلاقی گراوٹ !

زلزلے ہوں ،سیلاب کی تباہ کاریاں یا برفانی طوفان، یہ سب قدرتی آفات کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ ممکن ہے۔ تباہ حال گھر دوبارہ تعمیر ہوجاتے ۔ بستیاں پھر سے آباد ہوسکتی ہیں۔ جان سے جانے والوں کا دکھ آہستہ آہستہ بھلادیاجاتا ہے ۔ جنگ وجدال میں ہوئی تباہی کو بھی تعمیر نو سے مٹایاجاسکتا ہے ۔ لیکن اگر کسی معاشرے کی اقدارو اخلاقیات تباہ ہوجائے تو اس کا نتیجہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر اسے گمنامی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے ۔ تاریخ کی کتب میں ایسے بہت سے معاشروں کا ذکر موجود ہے جو اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو کر اپنا نام ونشان تک مٹابیٹھے ۔ قرآن پاک میں ایسے بہت سے واقعات درج ہیں جن میں اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے بہت سی قوموں پر بدترین عذاب نازل ہوا۔ انہیں جھوٹ، ملاوٹ، دغابازی ، بے انصافی اور بے راہ روی پر اللہ تعالیٰ نے عبرت کا نشان بنادیا۔ آج اگر ہم اپنے معاشرے کی طرف نظر ڈالیں تو یہاں وہ تمام اخلاقی بداعمالیاں ، اجتماعی طور پر اس طرح رچ بس چکی ہیںجن میں سے کسی ایک کا مرتکب ہونے پر قرآن میں درج واقعات کے مطابق اللہ نے بستیاں الٹ دیں۔ زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اللہ کے احکامات سے واقفیت اور خود کو مسلمان کہلوانے کے باوجود ہم اپنے ملک میں ڈھٹائی کے ساتھ ہر طرح کی برائی کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس پر شرمندہ بھی نہیں ہیں۔ 
 کچہریوں میںروازنہ ہزاروں کے حساب سے اللہ کی قسم اٹھا کر جھوٹے بیان حلفی عدالتوں میں جمع کرائے جاتے ہیں۔ وکلاء سے منتخب ہوکر ترقی کے مراحل طے کرنے والے جج صاحبان ملک کی عدالت عظمیٰ تک پہنچ جاتے ہیں لیکن جھوٹے بیان حلفیوں کا تدارک وہ بھی نہیں کر پاتے ۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں رشوت ستانی کو روکنے کیلئے کرنسی نوٹوں پر پیغام شائع کیاجاتا ہے کہ ’’رزق حلال عین عبادت ہے‘‘۔حالانکہ یہ واحد جرم ہے جس کیلئے اللہ نے حکم صادر کر رکھا ہے کہ ’’رشوت دینے اورلینے والادونوں جہنمی ہیں‘‘۔ جو قوم اللہ کی طرف سے واضح احکامات پر عمل کرنے کو تیار نہیں اس کیلئے کرنسی نوٹ پر لکھا پیغام کیا معنی رکھتا ہے۔ غلہ منڈیوں میں ملاوٹ کا دھندہ سارا سال کھلے عام جاری رہتا ہے ۔ جو زیادہ ملاوٹ کرے وہی زیادہ موثر سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ لا قانونیت کی پوری قیمت اداکرتا ہے ۔ ادویات میں ملاوٹ پر بہت سے ملکوں میں سخت سزائیں نافذ ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں آئے روز جعلی ادویات پکڑے جانے کی خبریں توآتی ہیں لیکن اسکے مرتکب بدبختوں کو ملنے والی سزا کی خبر کبھی سنائی نہیں دی۔ کم تولنا ، بدعنوانی ، چوری ، ڈاکے ، سڑکوں پر چند ہزار کا موبائل فون چھیننے کیلئے قتل تک کردینا اب ہمارے معاشرے میں قطعی غیر معمولی بات نہیں۔ مساجد کی تعداد دیکھیں تو ایک کلومیٹر کے علاقے میں 100سے زیادہ مساجد مل جاتی ہیں لیکن اسی ایک کلومیٹرمیں خالص دودھ بیچنے والی ایک دکان نہیں ملتی۔ جب دین سے محبت اور عبادات سے لگن کا یہ عالم ہے تو پھر اس کے معاشرے پر اثرات دکھائی کیوں نہیں دیتے؟ ہمارے ملک کے اندر کالجز اور یونیورسٹیوں میں اتنے پروفیسر نہیں ہیں جتنی تعدا د میں پاکستان کے اندر عالم دین ، مشائخ اور مذہبی پیشوائوں کی  تعدا د ہے۔
معاشرتی انحطاط میں مزید گراوٹ اس وقت آئی جب موبائل فون باہمی رابطوں کی سہولت سے زیادہ بے راہ روی اور بے حیائی پھیلانے کا سبب بن کر پہلے سے تباہ حال معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کرنے لگا۔ ہر طرف پھیلی بے حسی میں کسی کو احساس بھی نہیں رہا کہ ہم خود اپنے ہاتھوں اپنے بچوں تک بے ہودگی پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں جس کے منفی اثرات سے نونہال متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ہمارے ملک میں ایسے عناصر کی کمی کبھی نہیں رہی جو تقسیم ہند کے وقت سے مذہب  بیزاری کا شکار تھے اور پاکستان میں مادر پدر آزادمعاشرے کی خواہش رکھتے تھے۔مغرب زدہ یہ طبقات مغرب کے حقیقی معاشرتی نظام سے زیادہ وہاں کے اسٹوڈیوز میں تیار کی جانے والی فلموں سے متاثر تھے۔ پاکستان کو جدت پسندی کے نام پر تہذیب باختگی کے گڑھے میں گرنے سے صرف ہماری سیاسی اشرافیہ بچا سکتی ہے۔ بد قسمتی سے اپنی قومی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے ہماری قومی سیاسی قیادتوںنے ایک طرف اپنی جماعتوں میں جمہوری نظام کو فروغ دینے کی بجائے ملوکیت کو اپنالیاتو ساتھ ہی سیاست میں مخالفین کو رگیدنے اور انہیں ہر قیمت پر نیچا دکھانے کیلئے عوامی اجتماعات میں وہ لب ولہجہ اختیار کیا گیا جس نے معاشرے میں پہلے سے جاری ٹوٹ پھوٹ کو مزید تیز کردیا۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جس میں غیر اخلاقی فلمیں اور آڈیو لیکس سیاسی مخالفین کو کمزور کرنے کا اہم ذریعہ سمجھ لی گئی ہیں۔یہ سوچے بغیر کہ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ مواد ان کم عمر بچوں تک بھی پہنچ رہا ہے جنہیں ان آڈیو لیکس میں گفتگو کرنے والوں سے زیادہ ان جملوں اور الفاظ سے دلچسپی ہے جو کم عمر بچوںکیلئے زہر سے کم نہیں۔ اس پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی  اسے روکنے، نونہانوں کو اس زہر سے بچانے کیلئے تیار نہیں ۔ یہاں تک کہ ہمارا عدالتی نظام بھی اس پر خاموش ہے۔ ورنہ اگر ’’پورنو گرافی‘‘ پر قدغن کیلئے نظام عدل حرکت میں آسکتا ہے تو پھر فحش گوئی پر مبنی آڈیو لیکس ہوں یا بعض شخصیات کے عریاں فلمیں ان کے پھیلائو کو بھی روکا جاسکتا ہے ۔لیکن افسوس ہمارے معروف صحافی و دانشور بھی بجائے اس طرح کی آڈیو لیکس کی مذمت کرنے کے الٹا قوم کو پیغام دینے میں مصروف ہیں کہ’’ فکر نہ کریں،سب کی فلمیں اور آڈیو لیکس آئیں گی ‘‘۔ خدارا سیاست میں اس چلن کو روکیے جس میں قوم کی نئی نسلوں کی نظروں میں اپنے بڑوں کا احترام ختم ہو جائے اور معاشر ہ جنگل سے بھی بدتر شکل  اختیار کرلے۔   

ای پیپر دی نیشن