سال 2011ء کے نوحے سے 2023 کی خوش گمانی تک 

اکیسویں صدی کے بائیسویں سال نے ہماری معیشت و معاشرت اور اخلاقیات و سیاسیات کو جو دھچکے لگائے ہیں اور سلطانیٔ جمہور میں خلقِ خدا کو جس وحشیانہ انداز میں رگیدا ہے اس تناظر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ سال 2022ء شرفِ انسانیت کے حوالے سے بہت تلخ یادیں بکھیر کر ہم سے رخصت ہو رہا ہے۔ شائد اس بائیسویں سال نے اس ارضِ وطن پر آباد خلق خدا کے لئے اہتمام کئے گئے سارے دکھ،کٹھنائیاں، مسائل، مصائب ، کرب و ابتلا کے مناظر، اپنے پیدا کردہ اقتصادی، مالی اور توانائی کے بحران اور شرف انسانیت کی بے توقیری والے اقدامات آنے والے سال 2023ء کو منتقل کرنے کی وصیت کر دی ہو اور آج 30 دسمبر کے 24 گھنٹے بعد 2023ء کے طلوع ہونے والے سورج کے ساتھ ہی خلق خدا کے لئے ان کے مقدرات میں لکھی گئی اذیت کا بھی آغاز ہو جائے اور حبیب جالب کی روح بے چارگی کے عالم میں ان کے یہ اشعار فضائوں میں بکھیرتی نظر آئے کہ
کہاں بدلے ہیں دن فقیروں کے 
دن پِھرے ہیں فقط وزیروں کے 
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض 
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے 
اور پھر اس اداس ماحول میں مجھے اپنی ایک غزل کے یہ اشعار بھی کچوکے لگاتے نظر آتے ہیں کہ 
اس کی قسمت کا تارا مدھم ہے 
کیونکہ حمزہ کا چاند روشن ہے 
تیرا دامن ہے، چھید تو ہوں گے 
کوئی مریم کا تھوڑا دامن ہے 
ارے جناب! آپ سسٹم کے لئے ریشہ خطمی ہوتے رہیں اور سسٹم آپ کو رگیدتا، جھنجھوڑتا ، نچوڑتا گورستان کی جانب دھکیلتا نظر آئے تو آپ اس حسرت کے ہی اسیر بنیں گے کہ 
جب تک اپنے دیس کے انساں تن سے ننگے پھرتے ہیں 
تب تک اپنی قوم کا ننگا پن بھی چھپ نہ پائے گا 
تب تک اپنی قوم تمدن میں نہ آگے جائے گی 
جب تک ایک اِک فرد ہمارا پیٹ نہ بھر کے کھائے گا 
میں نے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نظم کی شکل میں ان کی شان میں ایک’’ قصیدہ‘‘ لکھا تھا جس کے کچھ اشعار یہاں پیش کر رہا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے 
چاہے دیس بھی ہوکنگال 
بھٹو جئے ہزاروں سال 
کھیل تماشہ کرے مداری 
امڈی آئے خلقت ساری 
اللہ اللہ یہ مکاری 
بدلے اک اک پل میں چال 
بھٹو جئے ہزاروں سال 
ایک معزز کا فرمان 
ہم کو دے گا یہ انسان 
روٹی کپڑا اور مکان 
یہ منہ اور مسور کی دال 
بھٹو جئے ہزاروں سال 
یہ مہنگائی، اللہ اللہ 
اور بے کاری، ماشاء اللہ 
نہ کچھ کپڑا، نہ کچھ غلّہ 
آئو ڈالیں خوب دھمال 
بھٹو جئے ہزاروں سال
میں نے یہ نظم قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کو بھجوا دی جن سے میری اپنے ایک استاد پروفیسر ایم سعید خاں کے ناطے سے یاد اللہ تھی جو ماڈل ٹائون لاہور میں حفیظ جالندھری صاحب کے کرایہ دار تھے۔ میں اکثر ان کے پاس جایا کرتا تھا تو حفظ جالندھری صاحب کے ساتھ بھی نیاز مندی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ انہوں نے میری اس نظم کی چار صفحات پر مشتمل خط کے ذریعے ستائش کی اور اپنے غمِ روزگار کے کچھ قصّے بھی لکھ دئیے۔ اس نظم کا تذکرہ اس لئے کر دیا کہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو ہی نہیں، مجھے ہر دور کے حکمرانوں کے ہاتھوں خلق خدا کی درگت بنتی ہی نظر آئی ہے۔ عمران خان نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر عوام کو چکمہ دیا اور اپنے اقتدار  میں انہیں دودھ، شہد کی نہریں بہتی دکھا دیں۔ قومی خودداری کے فریب میں مبتلا کرنے کے لئے خلق خدا کے سامنے یہ دعویٰ فرما دیا کہ میں آئی ایم ایف کے پاس کبھی کشکول لے کر نہیں جائوں گا اور آئی ایم ایف کی غلامی پر خودکشی کو ترجیح دوں گا۔ ارے صاحب! اقبال نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ 
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کُھلا 
دور عمرانیت میں خلق خدا کتنی زچ ہوئی، کس طرح راندۂ درگاہ بنائی گئی اور اس کے لئے زندہ درگور ہونے کی کیسے نوبت لائی گئی۔ یہ صورت حال تو اب تاریخ کے تلخ ابواب کا حصہ بن چکی ہے۔ 
اور جناب پھر دور عمرانیت کے مخالفین نے بھی قوم کو بیوقوف بنانے اور اس کے معاشی حالات سنوارنے کے چکمے دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے ایسے چکموں کی بدولت ہی انہیں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں کامیابی حاصل ہوئی اور قومی اسمبلی کی باقیماندہ مدت تک مسندِ اقتدار پر جاہ و جلال کے ساتھ فروکش ہونے کا موقع ملا مگر خدا لگتی کہئے، اتحادیوں کی حکمرانی میں گزرے آٹھ ماہ کے دوران ملک میں خوشحالی آئی ہے اور عوام کے چہرے اپنے روزمرہ کے مسائل حل ہونے پر خوشی سے دمکتے نظر آئے ہیں یا ان کے دِلوں کی مایوسیاں اور بھی بڑھی ہیں۔ 
جی ہاں۔ ’’دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے۔ آپ اس میں مشیروں، معاونین خصوصی اور حکومتی ترجمانوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں جو اپنی فوج ظفر موج کے ساتھ قومی خزانے میں بچے کھچے زرمبادلہ کو بھی بٹہ لگا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں سال 2022ء نے لاچار و بے وسیلہ خلق خدا کو مہنگائی، بے روزگاری اور بجلی ، گیس کے بحران حتیٰ کہ انسانی جان بچانے والی ادویات کی گرانی اور کمیابی کے بے دریغ جھٹکے دے کر اتنا رگیدا ہے کہ ان کے لئے زندگی کی رمق برقرار رکھنا ہی ناممکنات میں شامل ہو گیا ہے۔ 

پھر خدا لگتی کہئے کہ بھٹو دور سے اب تک راندۂ درگاہ عوام یہی وِرد نہیں کر رہے کہ 
نہ کچھ کپڑا، نہ کچھ غلہ 
آئو ڈالیں خوب دھمال 
جناب اب تو ’’موراوور‘‘ کا دور ہے اور نوبت تابوت میں کیل ٹھونکنے تک آ پہنچی ہے۔ دور عمرانیت میں مشیران و وزرائے کرام سرعام یہ کہتے نظر آتے تھے کہ شہریوںکوروزگار فراہم کرنا ریاست کی ہرگز ذمہ داری نہیں۔ اب ’’مور اوور‘‘ دورِ اتحادیہ میں یہ ہوا کہ برسرِ روزگار لوگوں کو روزگار سے محروم کرنے کاسلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔ میرٹ میرٹ کا جاپ جپنے والے وزرائے کرام کی وزارتوں اور متعلقہ محکموں میں سرعام میرٹ کے جنازے نکالے جانے لگے اور دورِ عمرانیت کی یہ روائت برقرار ہی نہیں رکھی گئی بلکہ مزید فروغ دی گئی ہے کہ نوکری مفت میں تو نہیں ملتی۔ نوکریوں کے اشتہارات ضرور اخبارات میں دئیے جاتے ہیں مگر متعلقہ اسامیوں پر ’’روکڑوں‘‘ کے عوض پہلے ہی بھرتیاں مکمل ہو چکی ہوتی ہیں اور ان اسامیوں کے لئے تحریری امتحان اور انٹرویو کے مراحل میں میرٹ شرمسار ہوتا سر جھکا کر رفوچکر ہونے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ سو دورِ اتحادی کا ’’مور اوور‘‘ کامران ہی کامران ہے۔ 
سال 2022ء کے دورِ اتحادی والے آٹھ ماہ کے دوران کون سی آفت و مصیبت ہے جو عوام پر نہ ٹوٹی ہو۔ اگر توانائی (بجلی ، گیس) کی گرانی و کمیابی نے عوام کے راندۂ درگاہ ہونے کی فضا اور بھی سازگار بنائی ہے اور موسم سرما میں بھی بجلی کی غیر علانیہ اور مسلسل سات آٹھ گھنٹوں کی روزانہ کی بنیاد پر ناروا لوڈشیڈنگ جاری ہے اور اسی طرح گیس بھی مسلسل مہنگی اور کمیاب ہو رہی ہے تو گورننس کی ’’خوش اسلوبی‘‘ اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے۔ آپ اس سے ہی بخوبی اندازہ لگا لیں کہ سال 2023ء کے موسم گرما میں عوام الناس کو لمحہ بھر کے لئے بھی بجلی دستیاب ہو پائے گی یا نہیں اور اب آئی ایم ایف کا شکنجہ تو اتنا سخت ہو گیا ہے کہ غیرتِ ملّی کو نچوڑ نچوڑ کر ختم کرنے پر ہی منتج ہو گا۔ 
وزیر اعظم شہباز شریف صاحب نے گزشتہ روز زندہ درگور خلق خدا کو کیا جاندار اور شاندار تجویز پیش کی ہے کہ وہ بجلی ، گیس استعمال کرنے کے معاملہ میں اپنی عادتیں تبدیل کرے تاکہ توانائی کے بچت پلان پر عملدرآمد ممکن ہو سکے۔ اب تو 35 روپے کا نان اور 25 روپے کی روٹی والے نرخ مقرر ہونے کے بعد عوام ’’پیٹو‘‘ بننے والی اپنی عادتیں تبدیل کرنے پر بھی ازخود مجبور ہو جائیں گے۔ اس لئے مہنگائی کو ہم یہ طعنہ دے کر شرمسار کر سکتے ہیں کہ 
تُو کہاں جائے گی، کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے 
ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے 
پھر بھٹو دور سے اب تک اور آنے والے سال کے دوران بھی اقتداری کروفر اس تلخ حقیقت کو ہی اجاگر کرتا نظر آئے گا کہ دن پِھرے ہیں فقط وزیروں کے۔ ترقیاتی منصوبوں میں کک بیکس اور کمشن لینے کی زریں روایات پر عمل پیرا ہوئے بغیر تو سلطانیٔ جمہور کا تصور گہنا یا ہی نظر آئے گا۔ 
حضور کچھ تو خیال کرو اور سال 2023ء کو اپنی ناآسودگیوں سے نڈھال ہوئے اور مرجھائے عوام کے لئے خوشحالی کا سال بنا کر اس ازلی شکوے کی نوبت نہ آنے دو کہ 
آپ تے پیویں بُکّاں شربت 
سانُوں گُھٹ گُھٹ زہر پلاویں 

ای پیپر دی نیشن