ٹیکنو کریٹ حکومت کا شوشہ

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان جب سے حکومت سے الگ ہوئے ہیں تب سے وہ مسلسل اپنے بیانات کے ذریعے ہیجان برپا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ کبھی وہ ریاست کے خلاف بیانات دیتے ہیں، کبھی وہ قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے خلاف زہر اگلنے لگتے ہیں اور کبھی طرزِ حکومت کی جمہوریت سے ہٹ کر انوکھی تجویزیں پیش کرتے نظر آتے۔ اب انھوں نے صحافیوں سے ملاقات کے دوران ایک نئی کہانی سنا دی ہے کہ ٹیکنو کریٹ حکومت لانے کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے۔ حکومت سے زیادہ پیچھے بیٹھے لوگوں کا الیکشن کے لیے راضی ہونا ضروری ہے۔ ان کی اس کہانی پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ٹیکنو کریٹس حکومت کا کوئی پیغام نہیں ملا۔ پہلے ٹیکنو کریٹس آتے رہے ہیں لیکن اب جو ہوگا وہ آئین کے مطابق ہوگا۔ یہ ایک نہایت افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان میں جیسے ہی کوئی شخص اقتدار سے محروم ہوتا ہے وہ اپنی تمام تر توانائیاں ایسے کاموں پر لگانا شروع کردیتا ہے جن سے عوام اور ریاست کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ہر ملک کی طرح پاکستان میں بھی آئین ایک بنیادی دستاویز کے طور پر موجود ہے اور اس میں ملک کے طرزِ حکومت کے بارے میں بھی وضاحت سے لکھا ہوا ہے لیکن ہماری سیاسی قیادت یہ زحمت گوارا نہیں کرتی کہ وہ آئین کے مطابق چلے۔ عمران خان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر پاکستان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے لیکن سوال یہ ہے کہ جب وہ خود پونے چار برس وزیراعظم کی کرسی پر براجمان تھے تب انھوں نے قانون و انصاف کی کتنی پروا کی؟ وہ اپنے عہدے کو مسلسل اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے رہے۔ اب عمران خان اور باقی سیاسی قیادت کو چاہیے کہ ملک کے غیر مستحکم حالات کے پیش نظر وہ اپنا قبلہ درست کریں اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ چھوڑ کر ملک اور عوام کی حالت میں سدھار لانے پر توجہ دیں۔ نیز یہ کہ ٹیکنو کریٹ حکومت آئین اورجمہوریت سے متصادم ہے، لہٰذا اس شوشے کا ذکر چھوڑیں اور جمہوریت کو مستحکم بنائیں۔

ای پیپر دی نیشن