کہاں تک سنو گے کہاں تک سناﺅں©ّ¿ً±


75روپے کے نئے نوٹ کا قصہ
پاکستان کے پچھتر سال پورے ہونے کی خوشی ، یادگار یا علامت کے اظہار کے لیے پچھتر روپے کا ایک نوٹ اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے جاری کیا ہے۔اس نوٹ کے ایک طرف وسط میں قائد اعظم محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح کے تصاویر ہیں جبکہ دائیں طرف سر سید احمد خان اور بائیں جانب علامہ اقبال کی تصاویر نظر آتی ہیں ۔ سو سے کم مالیت کے اس کرنسی نوٹ پر مطالعہ پاکستان کے بیک وقت چار مشاہیر کی تصاویر کو شامل کرنا ایک بالکل نئی بات ہے ۔اس کرنسی نوٹ کے دوسری سمت ان چار مشاہیر کے برعکس صرف ایک مارخور کے دو بڑے بڑے سینگوں والی تصویر گویا مضمون کے متن اور معانی کو مکمل کر رہی ہے ۔مارخور اپنی چار ٹانگیں زمین پر ٹکائے اور دو لہراتے ہوئے سینگ آسمان کی طرف اٹھائے بالکل سامنے آپ کی طرف دیکھ رہا ہے ۔گویا پورے منظر پر وہ ہی حاوی ہے۔اگر دیودار کے چند درخت ہیں بھی تو بہت ہی پیچھے اور پس منظر میں۔میں تو خیر اتنا زیرک اور اس قدر ذہین کبھی نہیں رہا ، جتنا ایسے علامتی کرنسی نوٹوں کو سمجھنے کے لیے ہونا چاہیئے تھا۔پر ستم ظریف میں ذہین اور زیرک لوگوں والی ساری علامتیں صاف دکھائی اور سنائی دے جاتی ہیں۔تو اسی لیے میں نے اس سے کہا کہ وہ پچھتر روپلی کے اس کرنسی نوٹ کی ضرورت اور علامتی معنویت پر روشنی ڈالے۔اب ستم ظریف ستم نہ کرے ،یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ۔کہنے لگا پہلے الطاف حسین حالی کے دو شعر سناوں گا۔پوچھا وہ کیوں؟ کہنے لگا آپ کا ذہن تیار کرنے کے لیے۔اچھا یہ بھی خوب ہے ،یعنی اب یہ نوبت آ گئی ہے کہ ستم ظریف ذہن تیار کرے گا اور وہ بھی حالی کے اشعار کے ذریعے۔چلیئے سنایئے۔ ستم ظریف بولا سنایئے نہیں کہتے ،شعر سننے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں ، آپ کو کہنا چاہیئے۔ ارشاد۔ 
رہنماو¿ں کے ہوئے جاتے ہیں اوسان خطا
راہ میں کچھ نظر آتی ہے خطر کی صورت
یوں تو آیا ہے تباہی میں یہ بیڑا سو بار
پر ڈراتی ہے بہت آج بھنور کی صورت 
تو بات یہ ہے اے عام لوگو ! کہ ملک کے حالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں ۔اگرچہ ہماری نسل کے لوگ بچپن سے لے کر پچپن تک یہی سنتے آرہے ہیں کہ ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے ۔لیکن یہ اشعار دھرانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ معاملہ واقعی گڑ بڑ ہے۔جہاں تک پچھتر روپے والے کرنسی نوٹ کا تعلق ہے تو یہ پچھتر سالہ پاکستان کی علامتی تاریخ ہے ،جسے ہم چھپاتے تو نہیں ،لیکن ان کرداروں کو مطالعہ پاکستان کی کتاب میں بند کرنے کے بعد یہ اہتمام بھی کر رکھا ہے کہ یہ سب کتاب سے باہر نہ نکل پائیں ۔یہ تو سامنے نظر آنے والا منظر ہے ۔جبکہ اصل حقیقت اس نوٹ کے دوسری طرف آپ کی طرف منہ کر کے بے خوف کھڑے مارخور کی مکمل تصویر ہے ۔مارخور اپنی مضبوط چار ٹانگوں پر کھڑا ہے ، اس کے لمبے لہریئے سینگ آسمان کی طرف رخ کیئے اس کی شان بڑھا رہے ہیں۔مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے۔سخت جان ہے ،سانپ کو کھاتا نہیں ، پر چاہے تو چبا ڈالتا ہے۔جفاکش اور مشکل ترین جغرافیائی حالات میں زندہ رہنے کی ہمت اور ہنر جانتا ہے ۔بس یہ یاد رکھو کہ یہ کرنسی نوٹ بتا یہ رہا ہے کہ مارخور یعنی لمبے سینگوں والا پہاڑی بکرا ہی اس ملک کی حقیقت ہے ۔باقی جو کچھ ہے ،خواب ہے ، افسانہ ہے۔
ملک میں خبروں کے عنوانات بدل رہے ہیں ، سیاستدانوں کو صرف پٹ سیاپا کرنے کی اجازت ہے ، اور بس .... شرلی کہنے لگا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے۔جگہ جگہ فورسز پر حملے ہورہے ہیں۔ابھی چند روز پہلے بنوں میں جو کچھ ہوا ،کیا اس کا تصور کیا جا سکتا ہے ؟ 18 دسمبر2022 کو بنوں شہر میں سی ٹی ڈی کمپلیکس میں 35 دہشت گرد مقید اور زیر تفتیش تھے ۔انہی میں سے ایک دہشت گرد نے سی ٹی ڈی کے ایک جوان پر حملہ کر کے اس سے اس کا ہتھیار چھین لیا اور اسلحے کے زور پر اپنے دیگر زیر تفتیش ساتھیوں کو آزاد کروانے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر ستم یہ کیا کہ انہوں نے سی ٹی ڈی کمپلیکس میں موجود مال خانے میں موجود سارے ہتھیار قبضے میں لے لیے اور فائرنگ شروع کرکے سی ٹی ڈی کے ایک سپاہی کو شہید کر دیا جبکہ ایک جوان زخمی ہوا، جو بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگیا۔یہاں سیکورٹی فورسز کا ایک جے سی او جو تفتیش کر رہا تھا اسے یرغمال بنا لیا گیا۔یہ سارے واقعات ایک ایٹمی طاقت کے حامل ملک میں ہو رہے ہیں۔بہرحال بعد ازاں ترجمان پاک فوج میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ بنوں آپریشن کے دوران شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور مرحلہ وار کمروں کی کلیئرنس کی گئی اس دوران پاک فوج کے جوان بہادری سے لڑے ۔ شدید فائرنگ کے تبادلے میں 25 دہشت گرد مارے گئے 3 گرفتار ہوئے جبکہ 7 دہشت گردوں نے سرنڈر کیا،48 گھنٹوں میں بھرپور کوشش کی گئی کہ دہشت گرد غیرمشروط طور پر ہتھیار ڈال دیں ،جبکہ دہشت گرد افغانستان جانے کے لئے محفوظ راستہ مانگ رہے تھے دہشت گردوں کے اس مطالبے کو مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا ۔ لیکن اس واقعے نے بہت سارے سوالات اور خدشات پیدا کر دیئے ہیں۔ یہ باغی دہشت گرد افغانستان جانے کے لیے محفوظ راستے کا مطالبہ کر رہے تھے۔گویا سارے فساد کا محور افغانستان میں دستیاب محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔یہ سارے واقعات کسی اچھے منظر کی تصویر کشی نہیں کر رہے۔ملک کی معاشی صورت حال تشویش ناک ہے ۔ آج دہشت کی لہر وفاقی دارالحکومت تک آ پہنچی ہے۔جہاں شہر کے اندر ،آبادی کے عین درمیان مشکوک ٹیکسی کار تلاشی کے دوران شدید دھماکے سے پھٹ گئی ،دو پولیس کے دو جوان شہید اور دیگر زخمی ہوئے ۔پر اسلام آباد کسی بڑے المیے سے بال بال بچ گیا۔ سیاسی منظرنامہ عبرتناک 
اور عام لوگوں کے لیے صحت ، سلامتی ، روزگار اور تعلیم کی صورت حال شرمناک ہے۔اورہمارے سیاست دان ،بھلے حکومت میں ہوں ،بھلے حزب اختلاف میں ،سبھی دیئے گئے اسکرپٹ کے مطابق ہنی اپنی جھگیوں کا ٹاٹ اٹھا کر لڑ رہے ہیں ۔چیخ رہے ہیں ، یک دوسرے پر سچے الزامات لگ رہے ہیں۔اس سارے کھیل میں پاکستان اور پاکستانی بالکل غیر متعلق نظر آ رہے ہیں ۔ایسے میں الطاف حسین حالی کے شعر کی طرف توجہ تو لازماً جائے گی ،ذرا غور سے سنیئے ؛
یوں تو آیا ہے تباہی میں یہ بیڑا سو بار
پر ڈراتی ہے بہت آج بھنور کی صورت
 

ای پیپر دی نیشن