حضرت عبدالواحد زید کا اخلاق حسنہ اور رستم رسیدہ ضعیف

فنانی الشیخ
ایک دفعہ حضرت عبدالوحد زید کسی راستے سے گزر رہے تھے۔ شدید گرمی کا موسم تھا اور ایک بوڑھا شخص راستے میں بے حال پڑا ہوا تھا۔ لوگ ادھر سے جا رہے تھے مگر کوئی بھی اس بوڑھے شخص کا پرسان حال نہیں تھا۔ حضرت شیخ عبدالواحد بن زید  نے مسلمانوں کی اس بے حسی پر دل ہی دل میں افسوس کیا اور بوڑھے کے قریب پہنچ کر پوچھا ’’کیا حال ہے‘‘ بوڑھے نے انتہائی سخت لہجے میں جواب دیا ’’تم بھی دوسروں کی طرح گزر جائو‘‘ حضرت شیخ عبدالواحد بن زید نے نہایت شیریں لہجے میں فرمایا ’’میں اپنے بھائی کی تکلیف دیکھ کر گزر جانے والوں میں سے نہیں ہوں۔ مجھے اپنا دکھ بتائو‘‘ بوڑھا آپ کا اخلاق کریمانہ دیکھ کر رونے لگا۔ ’’میں ایک بیمار شخص ہوں‘ دوا کیلئے پیسے نہیں‘ اب راستے میں تھک کر گر گیا ہوں تو کوئی اٹھانے والا نہیں۔‘‘
حضرت شیخ عبدالواحد بن زید نے بوڑھے شخص سے پوچھا ’’تمہارا کوئی گھر یا آل اولاد نہیں۔‘‘ بوڑھے شخص نے انتہائی نفرت آمیز لہجے میں جواب دیا ’’میرا گھر ہے مگر بے گھر ہوں۔ میرے تین جوان بیٹے لیکن لا اولاد ہوں۔‘‘ حضرت شیخ عبدالواحد بن زیدنے کسی قدر حیرت زدہ لہجے میں پوچھا ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص کے تین جواں سال بیٹے ہوں اور وہ خود کو لاوارث قرار دے دے۔‘‘ یکا یک بوڑھا شخص رونے لگا ’’میرے تینوں بیٹے اپنی بیویوں کے غلام ہیں۔ ان ہی بد ذات عورتوں کے کہنے پر میرے بیٹوں نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔‘‘ یہ سن کر حضرت شیخ عبدالواحد بن کا لہجہ اچانک بدل گیا‘ ’’بڑے صاحب! آج تم کس منہ سے بیٹوں کی شکایت کر رہے ہو؟ کبھی تم بھی تو کسی کے بیٹے تھے۔ تم نے جو کچھ بویا ہے وہی کاٹ رہے ہو۔کیا تم نے ماں باپ کو نوکروں کی طرح گھر کے ایک کونے میں نہیں ڈال دیا تھا کیا تمہاری بیوی ان بزرگوں کے ساتھ بے رحمی کا سلوک نہیں کرتی تھی۔ کیا تم اپنی بیوی کی ناز برداری کیلئے یہ سب کچھ برداشت نہیںکرتے تھے اللہ تعالی کے یہاں تو پورا پورا انصاف ہے۔ یہ اس کے انصاف کی پہلی قسط ہے۔ آخری قسط تمہیں حشر کے میدان میں ادا کی جائے گی۔‘‘
یہ سنتے ہی بوڑھا شخص بے اختیار چیخ اٹھا۔ ’’یقینا تم اللہ کے ولی ہو ورنہ میرے ماضی کے پوشیدہ رازوں سے کس طرح باخبر ہوتے۔‘‘ حصرت شیخ عبدالواحد بن نے نہایت عاجزانہ لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا ’’میں اس کی دوستی کے  قابل کہاں‘ بس یہی اس کا سب سے بڑا کرم ہوگا کہ وہ مجھ گنہگار کو معاف فرما دے۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت شیخ عبدالواحدبن زید  جانے لگے تو اس بوڑھے شخص نے فریادی لہجے میں پکار کر کہا ’’تمہیں اللہ کا واسطہ ہے۔ مجھے اس حال میں چھوڑ کر نہ جائو۔‘‘ حضرت شیخ عبدالواحد بن زید  واپس لوٹ آئے اور ناگوار لہجے میں فرمایا‘ ’’تمہیں بھی تو تمہارے ماں با پن نے اللہ کا واسطہ دیا مگر تم نے اس واسطے کی کوئی اہمیت نہیں سمجھی۔بوڑھا شخص زاروقطار رونے لگا۔ ’’میں تو نادان و بے خبر تھا مگر تم اللہ کو خوب جانتے ہو اس لئے اسی کی خاطر مجھ پررحم کرو۔ ورنہ اسی طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائوں گا۔‘‘ حضرت شیخ عبدالواحد بن زید نے زیر لب کچھ پڑھا اور بوڑھے شخص پر دم کر دیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بوڑھا اٹھ کر بیٹھ گیا بیماری  کے آثار تک نہ تھے۔
بوڑھا جوش عقیدت میںحضرت شیخ عبدالواحد بن زید کے قدموں سے لپٹ گیا۔ ’’بس اتنا اور بتا دیں کہ میرے وہ گناہ کس طرح معاف ہونگے جو والدین کے سلسلے میں مجھ سے سرزد ہوئے ہیں۔‘‘ حضرت شیخ عبدالواحد بن زیدنے فرمایا ’’پابندی سے نماز پڑھو اور ہر نمازرکے بعد اپنے والدین کیلئے دعائے استغفار کرو۔ حضور اکرمؐ کا فرمان مقد س ہے ’’اگر کسی شخص کو کسی وجہ سے اپنے والدین کی خدمت کا موقع نہ ملے تو اسے لازم ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے ماں باپ کیلئے اللہ سے مغفرت طلب کرے۔ والدین کے قریبی عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اور بوڑھے لوگوںکی خدمت کرے۔‘‘
وہ اب  اس کشمکش میں مبتلا تھا کہ اپنے گھر کس طرح جائے کہ وہاں اس کی کوئی عزت نہیں تھی۔ اچانک اس کے تینوںبیٹے شدید بے قراری کے عالم میں اپنے باپ کو ڈھونڈتے دیوانہ وار آگے بڑھ کر بوڑھے سے لپٹ گئے۔ ’’اللہ کا شکر ہے بابا کہ آپ مل گئے۔‘‘
بوڑھے شخص نے انتہائی ناگوار لہجے میں کہا‘ ۔’’تمہیں میری کیا پروا‘ میں تو تمہارے گھر کا بیکار سامان تھا جسے تم نے اٹھا کر باہر پھینک دیا تھا۔‘‘ تینوں لڑکے رو رو کر کہنے لگے‘ ’’نہیں بابا! کچھ دیر پہلے تک ہم شدید گمراہی میں مبتلا تھے اور اندھیرے میں بھٹک رہے تھے مگر اب ہمیں روشنی مل گئی ۔بیٹوں نے بتایاکچھ یر پہلے ہمارے گھر کے دروازے پر تیز دستک ہوئی۔‘‘ ایک بیٹا گھر سے باہر نکلا تو باہر ایک بہت ہی نورانی صورت بزرگ کھڑے تھے‘ میں ان بزرگ کو دیکھ کر گھبرا سا گیا۔ ان بزرگ سے پوچھا‘ ’’آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘ میری بات سنتے ہی بزرگ کا جلال کچھ اور بڑھ گیا اور وہ انتہائی بارعب آواز میں کہنے لگے‘ ’’جب تین جوان بیٹے مل کر اپنے حقیقی باپ کو کچھ نہیں دے سکتے تو وہ ایک غیر آدمی کو کیا دیں گے؟ میں تم سے کچھ مانگنے نہیں‘ تمہیں دینے آیا ہوں۔ تمہارا بوڑھا اور بیمار باپ بے سہارا پڑا ہے‘ جائو اسے منا کر عزت و احترام کے ساتھ اپنے گھر لے آئو اور اتنی خدمت کرو کہ وہ تم سے راضی ہو جائے۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو پھر عذاب الٰہی کا انتظار کرو جو بہت جلد اس پورے گھر کو تباہ و برباد کر دے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بزرگ چند قدم آگے بڑھے اور پھر نظروں سے غائب ہو گئے۔ بوڑھا شخص حضرت شیخ عبدالواحد بن زیدکے تصور میں گم تھا۔

ای پیپر دی نیشن