خواتین کا بے مثل ایثار

 محترم خالد بہزاد ہاشمی صاحب
میدان کربلا میں خواتین کا کردار
مفتی پیر سید محمد نوید الحسن شاہ مشہدی

تاریخ اسلام کا ایک اہم ترین واقعہ جس نے نام نہاد اسلامی معاشرے کو حقیقت اسلام سے روشناس کرایا اور تاریخ اسلام کو حیات ابدی کے رنگ میں رنگ دیا وہ سید الشہدائ،نواسہ رسول،جگر گوشہ بتول،  امام عالی مقام حضرت سیدنا  امام حسین ؓ کا سفر کوفہ ہے۔ یہ سفر ان مردوں اور عورتوں دونوں کی فداکاریوں اور جانثاریوں پر مشتمل ہے جو پوری دنیا کے مسلمان مرد و زن بلکہ ہر انسان کیلئے نمونہ عمل اور مشعل راہ ہیں۔
واقعہ کربلا نے انسانیت کو سرخرو کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کو حیات نو بخشی ہے۔اس عظیم واقعہ میں جہاں پر امام عالی مقامؓ کے با وفا،بہادرفرزندان اور اصحاب کا کردار موجود ہیں وہاں پر خواتین کی بے مثل قربانیوں سے انکار نا ممکن ہے، جسے تاریخ انسانی میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا گیا۔
  کربلا کے واقعات کو زندہ و جاوید بنانے میں حضرت سیدتنا زینب ؓ، حضرت سیدتنا کلثومؓ، حضرت سیدتنا سکینہ ؓ، اسیران اہل بیت اور کربلا کے دیگر شہدا کی بیویوں اور ماؤں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی بھی تحریک کا پیغام عوام تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک کربلا کی اسیر خواتین نے پہنچایا ہے۔ حضرت زینب ؓکے بے مثال کردار اور قربانیوں سے تاریخ کربلا روشن نظر آتی ہے۔ واقعہ کربلا میں صرف عاشورہ میں ہی نہیں بلکہ انہوں نے شہادت امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین ؓ کے بعد مختلف مقامات پر اپنا کردارادا کر کے یہ بات ثابت کی ہے کہ امام عالی مقام حضرت سیدناامام حسینؓ کا خواتین اور بچوں کو اپنے ہمراہ لے جانے کا فیصلہ کتنا صائب تھا۔
کربلا کی ان مثالی خواتین نے یزیدی قوت کے مقابل اپنے چھوٹے بچوں کو بھوک وپیاس کی شدت سے بلکتا ہوا دیکھنا گوارا کیا، یہاں تک کہ اپنے سہاگوں کو بھی راہ خدا میں قربان ہوتے دیکھا لیکن رسول اللہؐ  کے دین کی کشتی کو ڈوبنے نہیں دیا۔ واقعہ کربلا کو بے نظیر ولاثانی بنانے میں خواتین کربلا کے بے مثل ایثار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ معرکہ کربلا میں اگر خواتین نہ ہوتیں تو مقصد قربانی سید الشہدا حضرت  امام حسینؓ ادھورا ہی رہ جاتا۔ یہی سبب ہے کہ نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین  ملوکیت کے مقابلے میں بیداری اْمت کی تحریک میں اپنے ہمراہ اسلامی معاشرے کی مثالی خواتین کو میدان کربلا میں لائے تھے۔
کربلا میں امام عالی مقام حضرت سیدناامام حسینؓ کے انصار و مجاہدین کو ان کی ماؤ ں اور بیویوں نے ہمت اور حوصلہ دیا کہ تم سے زیادہ قیمتی حضرت خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓ کے فرزند ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے ہوتے ہوئے دشمن ان کو نقصان پہنچا دے، اگر ایسا ہوا تو ہم روز محشر حضرت خاتون جنت ؓکو کیا منہ دکھائیں گے۔ یہ ان عظیم ماؤں کی ہمت تھی کہ اسلام کی سر بلندی کے لیے کہیں عمر بھر کی کمائی حضرت سیدنا علی اکبرؓ کو امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓ کے لئے عظیم مشن پرقربان کیا توکہیں چھ ماہ کے ننھے شیر خوار کو امام کا مجاہد بنا کر پیش کیا گیا۔ حضرت زینبؓ نے یزید کے دربار میں جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ آج بھی تاریخ کے اوراق میں ثبت ہے۔آپ نے فرمایا:اے یزید! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد (برے انسان) سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں تو ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے۔ میری اس جرات سخن پر تو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بدسلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔اے یزید! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔۔۔۔۔ حضرت زینب ؓنے جس ہمت وبہادری کے ساتھ یزید کے دربار میں حق بیا ن فرمایا اور پھر خانوادہ رسول کے  ہمراہ  مدینہ کا سفر فرمایا اس میں آپ اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر خواتین اسلام امام عالی مقام سید الشہداحضرت امام حسین ؓ کا ساتھ نہ دیتیں تو اْمت مسلمہ کی بیداری کی یہ تحریک کبھی کامیاب نہ ہوتی۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...