صنعتی ٹرانس فیٹس کو ریگولیٹ کرنے میں پاکستان کا چیلنج

از ڈاکٹر ایس ایم غفران سعید
ڈاکٹر غفران کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
غیر محفوظ خوراک کے خلاف عالمی جنگ میں، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو۔ایچ۔او) کے تیار کردہ واضح معیار کے مطابق تمام غذائی اشیاء  میں صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹی ایسڈ (آئی۔ٹی۔ایف۔اے) کی مقدار 2 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس محفوظ غذا کے معیار کو تقینی بنانے کے لیے، عالمی اداراہ صحت نے دنیا بھر کی حکومتوں کو 2023 تک تمام غذائی اشیاء میں ٹرانس فیٹ کے خاتمے یا اْس کو 2 فیصد کی حد تک محدود کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ بدقسمتی سے، ان رہنما اصول پر عمل پیرا ہونے میں پاکستان کا سفر ایک رولر کوسٹر کی مانند رہا ہے، جس کی وجہ سے 2023 کے اختتام پر ہم اب تک محض کچھ ہی غذائی اشیاء کو ریگولیٹ کر پائے ہیں۔
 2016 میں، پاکستان کے پاس آئی۔ٹی۔ایف۔ اے کے لیے کوئی مخصوص ضابطے موجود نہیں تھے، جس کی وجہ سے عام کھائی جانے والی خوراک میں اس کی مقدار انتہائی خطرناک حد تک زیادہ تھی۔ 2017 میں پہلی مرتبہ بناسپتی گھی میں آئی۔ٹی۔ایف۔اے کو 10فیصد تک محدود کرنے کی حد مقرر کی گئی۔ تاہم یہ حد بھی ڈبلیو۔ایچ۔او کے مقررہ معیار سے بہت زیادہ تھی۔ 2020 میں ایک قابل تحسین تبدیلی اس وقت رونما ہوئی جب پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ایک فعال موقف اختیار کرتے ہوئے جزوی طور پر ہائیڈروجنیٹڈ تیل پر پابندی عائد کی اور آئی ٹی ایف اے پر 0.5 فیصد کی حد مقرر کی، جو کہ صحت عامہ کے تحفظ کی جانب ایک اہم قدم تھا۔ پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) نے 2023 میں معیارات پر مزید نظرثانی کی اور بناسپتی گھی، بسکٹ، مارجرین، بیکری کی چکنائی، رسک اور بیکری کے سامان کے معیارات کو عالمی صحت کے رہنما اصول کے مطابق 2 فیصد کی حد کے اندر لایا گیا۔ یہ ایک اہم قدم ہے جو پاکستانی پالیسی سازوں کی غذاء سے ٹرانس فیٹ کی مقدار کو کم کرنے کے عظم کی نشاندہی کرتا ہے۔ تاہم، ابھی بھی بہت سی کھانے پینے کی اشیاء  ایسی ہیں جو  آئی۔ٹی۔ایف۔اے کے اِس دائرہ کار سے باہر ہیں۔ ان میں چاکلیٹ، الٹرا پروسیسڈ فوڈز، آئس کریم، پاستا کی زیادہ تر اقسام، ڈیری اور اسٹریٹ فوڈ قابل ذکر ہیں۔ پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (پی وائی سی اے) کی زیر قیادت ٹرانسفارم پاکستان مہم، سول سوسائٹی کی تنظیموں جیسے کہ سینٹر فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ انیشیٹوز (سی پی ڈی آئی)، ہارٹ فائل اور معروف ماہرین صحت نے گزشتہ چند مہینوں کے دوران پالیسی میں پائے جانے والے اس تَضاد کو بار بار اجاگر کیا ہے۔یہاں اِس امر کا ذکر بھی اہم ہے کہ معیارات کا تعین مسلئے کے حل کا ایک حصہ ہے،  جبکہ ان ضوابط کا موثر نفاذ بھی اپنی جگہ ایک بڑا چیلنج ہے۔
ایک بڑی رکاوٹ جزوی طور پر ہائیڈروجنیٹڈ تیل (پی ایچ او) کی موجودگی ہے۔ یہ ایک ایسی قسم کی چکنائی  ہیجسے صنعت کھانے کا ذائقہ بڑھانے اور اپنی مصنوعات کی میعاد بڑھانیکے لیے استعمال کرتی ہے۔ پاکستان میں آئی ٹی ایف اے کے خلاف جنگ میں تیزی سے پیش رفت کو روکنے کے لیے صنعت کے کچھ حلقوں کی جانب سے پی ایچ او پر مبنی چکنائی کو ضابطے میں لانا ایک "چیلنج" قرار دیا گیا ہے۔ اسی پس منظر میں، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آئی ٹی ایف اے کے انسانی صحت پر سنگین اثرات اس کے پیش کیے جانے والے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔آسان ترین الفاظ میں، آئی ٹی ایف اے زہر کی ایک شکل ہے جو ہمارے جسمانی اعضاء بشمول دل پر مسلسل حملہ آور ہے۔آئی ٹی ایف اے کی 2 فیصد حد کے تحت تمام کھانوں کا احاطہ کرنے کی فوری ضرورت حقیقی ہے۔ جب تک کہ ایک لازمی حکومتی ضابطہ پورے پاکستان میں تمام کھانوں کا احاطہ نہیں کرتا، یہ یقینی بنانا تقریباً ناممکن ہو گا کہ پاکستانیوں کے جسم میں جانے والی خوراک محفوظ ہو۔اِس ہدف کی طرف تیزی سے آگے بڑھنے کے لیے مشترکہ کوششیں وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تمام متعلقہ افراد اور اداروں بشمول وزارت قومی صحت ، پی ایس کیو سی اے، صوبائی فوڈ اتھارٹیوں، قانون سازوں، صحت کے ماہرین ، میڈیا اور سول سوسائٹی، ہر ایک کو خوراک میں آئی ٹی ایف اے کی روک تھام کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔ آئی ٹی ایف اے کی حدود کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے، صحت عامہ کے تحفظ اور پاکستان میں صحت مند غذائی منظر نامے کی راہ ہموار کرنے کے لیے یہ باہمی تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن