بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
پڑھنے پڑھانے ( اور درس وتدریس) کے لیے انگلستان یاترا زندگی کا حصہ رہی اس لیے برطانوی سماج خصوصاً عوامی اور تعلیمی زندگی کو بار بار قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا رہا مجھ سے سوال پوچھا گیا کہ لندن کیوں پرکشش سٹی کہلاتا ہے لمحہ بھر توقف کے بعد جواب دیا کہ یہاں کہ 329 کتب خانے آنے والوں کو سحر زدہ کر لیتے ہیں آج بھی دنیا کے کسی شہر کو اتنی بڑی تعداد میں لائبریریاں رکھنے کا اعزاز میسر نہیں اسے علم دوستی کہہ لیں اہل برطانیہ کی کتابوں سے رغبت کہہ لیں یا انگلستان کے باسیوں کی نئے علوم میں دفن جستجو…لائبریریاں معاشرے کا تعارف اور روشن چہرہ کہلاتی ہیں پورے برطانیہ میں 3667 لائبریریاں دنیا کی بڑی آبادی کی گرویدہ ہیں امریکہ میں 2020 تک لائبریریوں کی تعداد 17450 جبکہ چین میں یہ تعداد3303 بتائی گئی پڑوسی ملک بھارت میں 14963 لائبریریاں حکومت اور شہریوں کے ذوق کا پتہ دے رہی ہیں اب ذرا 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آنے والی مملکت خدا داد کا تذکرہ کرتے ہیں دستیاب معلومات کے مطابق پاکستان میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی کل لائبریریوں کی تعداد صرف 307 ہے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں موجود 10 کتب خانے ہماری اور ہماری حکومت کی علم دوستی اور کتاب دوستی کا اعلان کررہی ہے۔ہم اسلام کے قلعہ پاکستان کی بات کررہے ہیں ہم ان محبان اسلام کی بات کر رہے ہیں جن کی پہلی سانس کا آغاز اقراء سے ہوتا ہے۔
تھے تمہارے ہی آباء مگر تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فروا ہو
قرآن مجید جسے الکتاب بھی کہا گیا ہے ، اس مقدس کتاب میں بے شک مکمل ضابطہ حیات ہے اسی کتاب میں جہاں پر نبی کریم ؐکو پڑھنے کی تلقین ہوتی وہاں پر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب کے لئے پڑھنے کا حکم ہے قرآن پاک سے پہلے زبور، تورائیت اور انجیل اللہ پاک کتابیں آ چکی تھیں اس لئے پہلی کتاب کب مرتب ہوئی اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر قرآن پاک میں پہلے کتاب کا ذکر ہے پھر پہلی وحی میں پڑھنے کا حکم ہے اور پھر دو لوگوں کے درمیان کچھ لین دین ہو تو اس کو تحریر کرنے کا حکم ہے ان احکامات سے ہمیں کتاب تحریر اور تعلیم کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے انسانی تہذیب کی شروعات کی کہانی کتاب اور کتب خانوں کے تذکرے کے بغیر نامکمل اور ادھوری رہے گی جب انسان کاغذ اور تحریر سے ناواقف تھا تب بھی وہ اپنا اظہار رائے مختلف طریقوں سے کرتا تھا کبھی زمین پر لائنیں لگا کر کبھی پتھروں پر تصاویر بنا کر کبھی درختوں کی چھال پر نقش بنا کر جس کی مثال ہمیں فرعونوں کے اہرام مصر پر ملتی ہے برصغیر میں موہنجو داڑو ہڑپہ اور ٹیکسلا کی تہذیبوں سے بھی ملتی ہے شروع میں تو کتب خانے لوگوں نے ذاتی حیثیت میں ذاتی مفادات اور ذاتی استعمال کے لیے بنائے مگر جوں جوں کتب خانوں کی اہمیت اور شعور بیدار ہوا تو پھر عوامی سطح پر بھی کتب خانے وجود میں آنے لگے انسانی زندگی میں یونانی تہذیب کا بہت عمل دخل ہے اور تقریبا آج کے موجودہ دور کی بنیاد اسی پر منحصر کرتی ہے چنانچہ اگر ہم یونان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلتا کہ اس دور میں لگ بھگ گیارہ سے بارہ سو کے قریب مصنفین موجود تھے جن کے اپنے اپنے کتب خانے تھے لیکن جو ٹھوس شواہد ملتے ہیں ان کی روشنی میں سب سے پہلا کتاب گھر ارسطو نے بنایا جس میں سینکڑوں کتابیں موجود تھیں مگر کتاب کو پڑھنے اور تحریر کو عروج مسلمانوں نے دیا۔ مسلمانوں کے دور حکومت میں ہارون الرشید اور اس کے بیٹے مامون الرشید نے بغداد میں باقاعدہ طور پر بیت الحکمت کے نام سے عظیم الشان کتب خانہ بنوایا جس سے عام لوگ بھی مستفید ہو سکتے تھے اور یہ وہی کتب خانہ تھا جسے ہلاکو خان نے تیرہویں صدی میں تباہ و برباد کر دیا تھا اس وقت اس عظیم الشان کتب خانے میں عربی، فارسی، سریانی، قبطی، اور سنسکرت کی دس لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود تھیں ۔ کتاب کی اہمیت کو ہم اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا میں موجود تقریبا تمام مذاہب کے پاس اپنی اپنی متبرک کتب موجود ہیں کتابیں کسی بھی معاشرے کے افراد کی تعلیم و تربیت میں جو کردار ادا کر سکتیں ہیں اس سے ہم انکار نہیں کر سکتے ایک وقت تھا جب کتاب کو بہت اہمیت دی جاتی تھی اور صاحب علم لوگوں کے بارے میں بتایا جاتا تھا کہ فلاں شخص کا بہت مطالعہ ہے وطن عزیز میں تو زیادہ تر کتب خانے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہی تھے یا پھر بڑے بڑے سکولوں میں تھے اگر میں صرف لاہور کی ہی بات کروں تو یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کے علاوہ صرف پنجاب پبلک لائبریری اس کے بعد لارنس گارڈن میں کلب کی بلڈنگ کو ضیاء الحق کے دور میں قائداعظم لائبریری میں تبدیل کر دیا گیا اور اس کے بعد پاکستان کی غالباً پہلی چلڈرن لائبریری بھی لارنس گارڈن کے سامنے بنائی گئی اور یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں صرف پی ٹی وی کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا دور دور تک نہیں تھا اور ہم سب اس وقت تک انٹرنیٹ سے کوسوں دور تھے بلکہ مکمل طور پر انٹرنیٹ سے ناواقف تھے 90 کی دھائی میں جب انٹرنیٹ نے عوام میں قدم جمانے شروع کیے تو پوری دنیا میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا آغاز ہوا اس تبدیلی سے جہاں پر انفرمیشن کے سیلاب کی شروعات ہوتی ہیں وہاں پر ہم سب آہستہ آہستہ ایسی چیزوں کو اپناتے گئے کہ ہمیں کچھ اچھی عادتیں چھوڑنے کا احساس تک نہیں ہوا مثال کے طور پر میری اپنی عادت تھی کہ سکول جانے سے پہلے میں صبح اخبار ضرور پڑھتا تھا ناشتے سے زیادہ ضروری اخبار پڑھنا ہوتا تھا اب کئی کئی دن دن گذر جاتے ہیں کہ اخبار نہیں پڑھتا اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر سارا دن تازہ خبریں آ رہی ہوتی ہیں اور رات کو قسم قسم کے تبصرے چل رہے ہوتے اس لئے اخبار کی اہمیت پہلے سے کم ہو گئی ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے اکنامکس کے پروفیسر صاحب نے ایک دفعہ نصیحت کی کہ رات کو سونے سے پہلے کچھ نہ کچھ ضرور پڑھ کر سویا کرو اسے اپنی عادت بنا لو یقین کریں کہ رات کو سونے سے پہلے پڑھنے کی عادت کا مجھے زندگی میں بہت فائدہ ہوا ۔یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ اکثر لائبریریوں میں کتاب پڑھنے میں اپنا وقت گذارتے تھے طالب علموں کی بڑی تعداد ریسرچ کے سلسلے مختلف لائبریریوں میں گذارا کرتی تھی مگر انٹرنیٹ نے ایسے پنجے گھاڑے کہ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ کتاب اور کتب خانوں سے دور ہوتے گئے۔ اور دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ لوگوں نے پڑھنا لکھنا چھوڑ دیا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے موبائل فون اور لیپ ٹاپ پر آپ کے پاس پوری دنیا کی انفرمیشن چوبیس گھنٹے موجود ہے بلکہ انٹرنیٹ کی سہولت کی وجہ سے ای لائبریری کے ذریعے پوری دنیا کی یونیورسٹیاں ایک دوسرے کی لائبریریوں سے منسلک ہو چکی ہیں اور یہ سہولت ایچ ای سی بھی پاکستان کی یونیورسٹیوں کو فراہم کر رہا۔ مگر اس سب کے باوجود ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا رشتہ کتاب اور کتب خانے سے ٹوٹنا نہیں چاہیے کتاب اور کتب خانے کی اہمیت اپنی جگہ پر موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں جدید ٹیکنالوجی اور جدید بنیادوں پر تبدیلی کی ضرورت ہے جو موجودہ وقت میں اس کا تقاضا ہے کہ ہم سب کو مل کر اس سلسلے کو زندہ رکھنا ہے انشاء اللہ