شبانہ ایاز
shabanaayazpak@gmail.com
7اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والا حماس کا حملہ فلسطینیوں کے ساتھ 75 سالوں سے جاری اسرائیل کی نا انصافیوں کا رد عمل تھا ۔80 دن پہلے شروع ہونے والی جنگ نے جہاں غزہ میں انسانی المیہ کو جنم دیا ہے وہیں اسرائیل کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو کو کہنا پڑا ہے کہ " غزہ جنگ کی ہمیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے" اس بیان کی وجہ یہ ہے کہ ایک سروے کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک 500 سے زائد اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت ہو چکی ہے جبکہ غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی شہادتوں کی تعداد 20 ہزار 674 ہو گئی ہے۔فلسطینی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ نے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں کے بعد جان کی بازی ہارنے والے فلسطینیوں کی تعداد بڑھ کر 20 ہزار 674 اور زخمیوں کی تعداد 54 ہزار 536 ہو گئی ہے۔ میڈیکل ٹیموں کے کارکنوں اور طبی عملے کے شہید ہونے والے ارکان کی تعداد 300 سے زائد جبکہ سول ڈیفنس کے عملے میں 35 اور صحافی 81 سے زائد شہید ہو چکے ہیں۔ ملبے تلے لاپتہ افراد کی تعداد 10ہزار سے زائد اور زخمی 50 ہزار تک ہیں اور اس میں ہر منٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ حماس نے اسرائیل پر ایک طرح سے خودکش حملہ کیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔حماس نے اسرائیل کے فلسطین کے بقیہ 20 فیصد حصہ پر قبضہ کے منصوبے پر پانی پھیر دیا ہے ۔فلسطین کا بچا کچا دس فیصد حصہ غزہ میں اور دس فیصد حصہ مغربی کنارے پر محیط ہے۔اسرائیل نے ایک سال بعد اسی 20 فیصد آبادی والے فلسطینیوں کو صحرائے سینا کی طرف ہانک دینا تھا۔صحرائے سینا میں اس مقصد کے لئے بلڈنگز بنائی جا رہی تھیں، عمارتوں کی تعمیر کا کام جاری تھا۔
حماس کے حملے نے وقت سے پہلے ان کی تیاری کا منصوبہ ناکام کر دیا ہے۔ اس لیے اسرائیل حواس باختہ ہو گیا ہے۔امریکہ اور عرب ریاستیں اس کام کے لیے اسرائیل کے ساتھ تیار تھیں ۔اسرائیل کے مصر کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کے ساتھ بھی تعلقات بحال ہونا شروع ہو گئے تھے۔بہت نزدیک تھا کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیتے۔حماس کے حملے نے ان تعلقات کو بھی زک پہنچائی ہے ،ساتھ ہی عرب ممالک بشمول سعودی عرب کا اسرائیل کو تسلیم کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔اسرائیل کے ساتھ اسلامی ممالک کی نارملائزیشن اب ممکن نہیں رہی۔حماس دراصل ایک مزاحمتی تحریک ہے جو اپنی سرزمین کے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ حماس فلسطین کی ایک سیاسی طاقت بھی ہے۔اتنی شہادتوں کے باوجود فلسطین کے عوام حماس کے ساتھ کھڑے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ غزہ جنگ صرف فلسطین تک محدود نہیں رہے گی، یہ وار آف اسلام ہے۔یہ عالمی منصوبہ ہے جو کہ نائن الیون کے بعد سے تمام مسلمانوں کے لئے ہے۔ہمیں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ صیہونی ایجنڈا دراصل معاشی ایجنڈا ہے ۔
اس بات کو سمجھنے کیلئے 2019 کے سروے پر نظر ڈالنی ہوگی جس کے مطابق پتہ چلا تھا کہ مشرقی بحیرہ روم میں لبنان، اسرائیل، غزہ اور مصر کی سمندری حدود میں 122 ٹریلین کیوبک فیٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں، جس کی مالیت ساڑھے پانچ سو ارب ڈالر سے زائد ہے۔ صرف غزہ کی سمندری حدود میں گیس کے ذخائر 1.4 ٹریلین کیوبک فیٹ ہیں۔ جس سے فلسطینی اتھارٹی کو 4.5 ارب ڈالر کی امدنی ہو سکتی ہے۔ جس سے غزہ کی اقتصادی حالت پلٹ سکتی ہے اسی تناظر میں مغربی کنارے اور غزہ کے قدرتی وسائل کا جائزہ لیا جائے تو سمجھ ا جائے گا کہ اسرائیل کو یہ سرزمین ہر قیمت پر کیوں درکار ہے چاہے تمام فلسطینی ختم ہی کیوں نہ ہو جائیں یا انہیں در بدر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ 1995 میں ہونے والے اوسلو معاہدے میں (اسرائیل اور تنظیم ازادی فلسطین کے مابین معاہدہ)کی ایک شق یہ بھی تھی کہ فلسطینی انتظامیہ اپنے حدود میں قدرتی وسائل اور معدنیات پر مکمل اختیار رکھے گی اسی لیے 25 سالوں کے لیے فلسطینی انتظامیہ نے غزہ کی ساحلی حدود میں گیس کی تلاش و پیداوار کے لیے برٹش کمپنی کو 90 فیصد حقوق کا لائسنس دیا تھا۔
2007 میں جب حماس غزہ میں برسر اقتدار آئی تو اسرائیل نے غزہ کی بری، بحری اور فضائی ناکہ بندی کر دی اور غزہ کی سمندری حدود میں گیس کے ذخائر پر بھی اپنا حق جتلانا شروع کر دیا،جس کے باعث برٹش گیس نے اپنا کام بند کر دیا۔ 2016 میں شیل نے برٹش گیس سے غزہ میرین گیس فیلڈ کے شیئرز خرید لیے۔2018 میں شیل نے بھی اسرائیلی دباؤ میں ا کر فلسطینی اتھارٹی سے اپنا معاہدہ ختم کر دیاحالانکہ اسرائیل کے پاس سمندری حدود میں اگلے 40 برسوں کے لیے گیس کے ذخائر موجود ہیں جو کہ مصر اور یورپی یونین کے لیے بھی کافی ہیں۔30 اکتوبر کو عین غزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے چھ عالمی کمپنیوں کو تیل و گیس کے کاروبار کے لیے 12لائسنس جاری کیے. فلسطین کے 80 فیصد علاقے پر اسرائیل کا کنٹرول ہے جبکہ صرف 20 فیصد حصے پر مسلمانوں کا کنٹرول ہے 10 فیصد غزہ کی پٹی اور 10 فیصد مغربی کنارے میں مسلمان اباد ہیں۔ اسرائیل ان باقی بچے کچے مسلمانوں کو بھی صحرائے سینا کی طرف دھکیل دینا چاہتا ہے اور سمندر کے اندر موجود قدرتی وسائل پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔یہ تسلط یہیں تک نہیں رہے گا، اسرائیل کا منصوبہ دنیا کی وسائل پر قبضہ کرنا ہے ’’.نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر‘‘ سی پیک کے ایک سرے پر نہر سوئز ہے تو دوسرے سرے پر پاکستان ہے ۔ادھر نیتن یاہو ہے تو دوسری طرف مودی ہے۔ یہودی ایجنڈا فلسطین سے کمالیک نکالنے کا ہے جبکہ ہندوؤں کا ایجنڈا دیوتاؤں کی دھرتی سے غیر ہندوؤں کا خاتمہ ہے۔حماس صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ۔
اسلامی ممالک میں پبلک اور حکومتیں الگ الگ ہیں پبلک فلسطین کے حق میں ہے لیکن اسلامی حکومتیں مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ عرب عوام بھی فلسطین کے ساتھ ہے یہ بہت بڑی سپورٹ ہے۔دنیا بھر کے عوام فلسطین کے حق میں مظاہرے کررہے ہیں۔ اس عوامی دباؤ کے تقریباً تین ماہ بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطین کے حق میں قرارداد نمبر 2722 منظور ہوئی جس میں محض امداد میں اضافے کی بات ہوئی۔ اسراائیل کے دباو پر امریکا بہادر نے اس میں جنگ بندی کی کوئی دفعہ شامل نہیں ہونے دی۔قرارداد کا پہلا مسودہ جو متحدہ عرب امارات کی جانب سے پیش کیا گیا تھا اس میں جنگ بندی کی بات شامل تھی۔ مگر پہلے اس کو عارضی طور پر لڑائی روکنے میں تبدیل کیا گیا اور پھر امریکی دباو پر لڑائی میں کسی بھی وفقے کی بات کو سرے سے ہی حذف کر دیا گیا۔قرارداد کے مسودے میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اقوام متحدہ امداد کی نگرانی کرے گی۔ اسرائیل کے دباو پر امریکا نے یہ دفعہ بھی تبدیل کرا دی۔ دوران جنگ امداد کا ہر جگہ پہنچنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لہذا اصل مسودے میں یہ بات تھی کہ تمام زمینی، بحری اور فضائی راستوں کا استعمال کرتے ہوئے پورے امداد کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی۔ اس کو تبدیل کر کے تمام میسر راستے کر دیا گیا۔ یعنی سراائیل کے اوپر چھوڑ دیا گیا کہ وہ کس راستے سے امداد جانے دیتا ہے اور کس کو راستہ نہ ہونے کے بہانے روک دیتا ہے۔قرارداد کی حمایت میں 13 ووٹ ا?ئے، مخالفت میں صفر، دو ممالک نے ووٹ نہیں دیا،امریکا کے ووٹ نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ قرارداد میں حماس کی مذمت نہیں کی گئی۔ یہ مزاحمت کے بیانیے کی کامیابی ہے کہ اس کی مذمت قرارداد میں شامل نہ ہو سکی۔ روس کے ووٹ نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ امریکا نے قرارداد میں اتنی تبدیلیاں کی ہیں کہ وہ بے معنی ہو گئی ہے۔
حماس نے کہا ہے کہ ہم قرارداد نمبر 2722 کو ناکافی قدم سمجھتے ہیں خصوصاً اس لیے کہ اس میں ہمارے لوگوں پر جاری نسل کشی روکنے کی کوئی بات نہیں۔ امریکا نے پانچ دن سخت محنت کی کہ قرارداد کو بے معنی کر دیا جائے۔ امریکا نے دنیا کے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس موقف کا انکار کیا کہ جارحیت رک جانی چاہیے۔
لیکن یہ جارحیت رکتی نظر نہیں آرہی!!