محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی دلیر ترین لیڈر تھیں- جب 1977ء میں انکے عظیم والد ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر انکے خلاف قتل کا مقدمہ چلایا گیا تو وہ اپنی تعلیمی سرگرمیاں چھوڑ کر اپنے والد کی زندگی کیلئے قانونی جنگ لڑنے لندن سے پاکستان پہنچ گئیں- میری ان سے پہلی ملاقات راولپنڈی میں 1978ء میں ہوئی جب میں ایک سال قید بامشقت کاٹ کر جیل سے رہا ہوا- ذوالفقار علی بھٹو کی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھی-
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد پی پی پی کے اکثر مرکزی سطح کے لیڈر خوف اور مصلحت کا شکار ہو گئے- جبر اور خوف کے اس دور میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے پارٹی کو قیادت فراہم کی اور قانونی جدوجہد کے ساتھ ساتھ سیاسی جدوجہد کا بھی آغاز کیا - ذوالفقار علی بھٹو نے موت کی کوٹھڑی میں آخری ملاقات کے دوران اپنی بیگم اور بیٹی سے کہا کہ وہ پاکستان سے باہر چلی جائیں- دونوں عظیم خواتین نے کہا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر نہیں جائیں گی اور عوام کی قیادت کریں گی- آمر جنرل ضیاء الحق اور اسکے رفقاء ا خیال تھا کہ بھٹو کے سیاسی منظر سے ہٹنے کے بعد پی پی پی ختم ہو جائے گی-
بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی دلیرانہ قیادت میں پی پی پی کے جیالوں نے عظیم الشان قربانیاں دیکر ضیاء الحق کے منصوبے کو خاک میں ملا دیا-پی پی پی کے شہیدوں اور غازیوں کی طویل قربانیاں رنگ لائیں اور 1988ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو نے عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوکر پوری دنیا اور جنرل ضیاء الحق کی باقیات کو حیران کر دیا-
جنرل ضیاء الحق کی باقیات اور پاکستان کے رجعت پسند عناصر نے سازش کرکے صرف اڑھائی سال بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کر دیا- 1990ء کے انتخابات میں ریکارڈ دھاندلی کرکے اسٹیبلشمنٹ کے" لاڈلے" میاں نواز شریف کو اقتدار میں لایا گیا- بے نظیر بھٹو نے سیاسی جدوجہد جاری رکھی اور 1993ء کے انتخابات میں دوسری بار پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوگئیں-اس بار بھی ان کو تین سال کے بعد گھر بھیج دیا گیا- 1997ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوگئے - 1999ء میں جنرل مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا-
مورخین نے 1988ء سے 1999ء کے سیاسی دور کو "میوزیکل چیئرز" کا دور قرار دیا- جنرل پرویز مشرف کے دور میں بے نظیر بھٹو جلا وطن رہیں اور لندن و دوبئی میں بیٹھ کر پارٹی کی قیادت کرتی رہیں- ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کی وجہ سے صرف دس سال پی پی پی کی قیادت کر سکے جبکہ بے نظیر بھٹو نے پی پی پی کی 30 سال تک سرگرم پرجوش اور پر عزم قیادت کی- جب جنرل پرویز مشرف نے 2007ء میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس آ کر انتخابی مہم کی قیادت کرنے کا فیصلہ کیا - حالانکہ دہشت گردوں نے انہیں قتل کرنے کی دھمکی دے رکھی تھی- جنرل مشرف چاہتے تھے کہ بے نظیر بھٹو انتخابات کے بعد پاکستان واپس آئیں تاکہ وہ انتخابات میں مثبت نتائج حاصل کر سکیں-
بے نظیر بھٹو اکتوبر 2007ء میں کراچی ائیرپورٹ پر اتریں تو 1986ء کے تاریخی استقبال کے بعد عوام کے سمندر نے ایک بار پھر ان کا پر جوش استقبال کیا- کارساز کراچی کے مقام پر دہشت گردوں نے بے نظیر کے استقبالی ٹرک کے نزدیک خود کش حملہ کر دیا جس میں 200 سے زیادہ غریب جیالے شہید ہوگئے - بے نظیر کے دشمنوں کا خیال تھا کہ وہ خود کش حملے سے خوف زدہ ہو کر دوبء واپس چلی جائیں گی مگر عوام کی دلیر لیڈر سیاست کے میدان میں ڈٹی رہیں - 27 دسمبر 2007ء کو انہوں نے لیاقت باغ راولپنڈی میں عوام سے پرجوش خطاب کیا- مشرف انتظامیہ نے ان کو مکمل سیکورٹی فراہم نہ کی اور دہشت گرد ان کو شہید کرنے میں کامیاب ہوگئے - دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک بے نظیر کے اصل قاتل اور منصوبہ ساز بے نقاب نہیں ہو سکے- بے نظیر بھٹو کی قومی خدمات کی تفصیل ایک الگ کالم کا تقاضا کرتی ہیں- انکے قومی کارنامے آج بھی عوام کے دلوں میں تازہ ہیں جن میں بے نظیر انکم سپورٹ سکیم، دفاع کیلئے ایٹمی میزائل ٹیکنالوجی اور خواتین اور نوجوانوں کی ترقی کیلئے منصوبے شامل ہیں-
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بیدار باشعور اہل عوامی مقبولیت کے حامل لیڈروں کو برداشت نہیں کیا گیا تاکہ پاکستان سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کرکے اور ترقی یافتہ ملک بن کر عالم اسلام کے اتحاد اور رہنمائی کے قابل نہ بن سکے- محب الوطن دانشمند عوامی لیڈروں کو سیاسی منظر سے ہٹا کر" بونے لیڈروں" کو اہمیت دی جاتی رہی-آج پاکستان ایک بار پھر اپنی تاریخ کے حساس اور نازک موڑ پر کھڑا ہے- بعض دانشور موجودہ صورتحال کا موازنہ 1971ء والے حالات سے کر رہے ہیں جب بدقسمتی سے عوام کی رائے کو دبانے اور کچلنے کی وجہ سے پاکستان دولخت ہو گیا تھا- حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے قومی اتحاد اور یک جہتی کی جانب آ جائیں- پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز نئے دور کے نئے حالات کے مطابق میثاق جمہوریت، میثاق معیشت اور نیو سوشل کنٹریکٹ پر اتفاق رائے کر لیں- بے نظیر بھٹو کی 16 ویں برسی پر نوڈیرو میں بڑا عوامی جلسہ ہوا جس میں پارٹی کے چیئرمین نوجوان قیادت بلاول بھٹو زرداری نے 10 نکاتی منشور پیش کیا- جس میں تنخواہوں کو دوگنا کرنا اور غریب عوام کو 300 یونٹ بجلی مفت فراہم کرنا قابل ذکر ہیں- اللہ تعالیٰ پاکستان کی دلیر عظیم لیڈر بے نظیر بھٹو کے درجات بلند کرے-
٭…٭…٭