اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)سال2023اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے تاہم یہ امر واضح ہے کہ پاکستان عالمی ادارہ صحت کی ہدایت کے مطابق 2023کے اختتام تک اپنی خوراک کے تمام ذرائع سے انسانی صحت کیلئے شدید نقصان دہ صنعتی طور پر پیدا شدہ ٹرانس فیٹ(آئی ٹی ایف اے) کو مکمل طور پر ختم کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ واضح رہے کہ رواں سال کے اوائل میں وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشنز کے نیوٹریشن کے شعبے نے پاکستان سٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی(پی ایس کیو سی اے) کے تعاون سے خوراک کے مخصوص ذرائع جیسا کہ بناسپتی گھی اور بیکری سے متعلقہ اشیاء وغیرہ میں آئی ٹی ایف اے کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کافی کوششیں کیں تاہم عوامی صحت سے متعلقہ ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ کوششیں ناکافی ہیں۔گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر (جی ایچ اے آئی)کے کنٹری کوآرڈینیٹر منور حسین نے ٹرانسفارم پاکستان مہم کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ پیک شدہ نمکین اشیاء ، دودھ سے بنی اشیاء گلی محلوں کے کھانے اورالٹرا پراسس شدہ اشیاء کی متعدد قسمیں تاحال آئی ٹی ایف اے کے مقرر کردہ سٹینڈرڈزکے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ حکومت پاکستان پر لازم ہے کہ آئی ٹی ایف اے کو لاگو کرنے کے معاملے میں مزید تاخیر کی اجازت نہ دے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے عین مطابق خوراک کے تمام ذرائع سے ٹرانس فیٹ کے جلد از جلد خاتمے کیلئے تمام ذرائع بروئے کار لائے جائیں۔وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشنزکے نیشنل کوآرڈینیٹر برائے نیوٹریشن اینڈ این ایف اے ڈاکٹر خواجہ مسعود احمد کا اس حوالے سے جاری کاوشوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہماری وزارت اس ضمن میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور خوراک کے تمام ذرائع میں ٹرانس فیٹ کو 2فیصد پر رکھنے کی ریگولیشن کیلئے پی ایس کیو سی اے کو تکنیکی معاونت فراہم کر رہی ہے تاکہ عوام کی صحت کا تحفظ کیا جا سکے۔