بلوچ قوم اور حقائق

گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا اور ہمارے کچھ نام نہاد دانشوروں کی جانب سے پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ بلوچ قوم کو عزت و مرتبہ نہیں دیا جا رہا جس کی وہ حقدار ہے۔ اور بلوچستان میں گمشدگیوں کے مسئلے کو ریاست سے جوڑ کر ملک دشمن قوتوں کو پاکستان کیخلاف بولنے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے۔ میں  بلوچ قوم کو ملنے والی عزت و احترام اور نام نہاد بلوچوں کے بارے میں اصل حقائق پیش کرنے کی کوشش کروں گا تا کہ قوم اصل صورت حال سے آگاہ ہو سکے۔ بلوچ قوم کیلئے پاکستانی بحیثیتِ ملک اور قوم جو محبت بھرا خاص جذبہ رکھتے ہیں اس میں کوئی دورائے نہیں ہے، حکومت اور پنجاب سمیت دیگر صوبوں کے لوگ بلوچستان سے چھوٹا صوبہ ہونے کے ناطے درد رکھتے ہیں اور بلوچ جب بھی پنجاب یا کسی دوسرے صوبے میں جاتے ہیں تو انہیں خاص عزت اور مہمان نوازی ملتی ہے۔اتنے کوئٹہ کے نام سے ہوٹل تو شاید بلوچستان میں نہیں ہوں گے جتنے پنجاب میں ہیں، ان کو ان کی قومیت کی وجہ سے کسی تعصب کا نشانہ نہیں بنایا جاتا اور نہ ہی ان پر کسی قسم کی کوئی قدغن ہے کہ وہ پنجاب میں کاروبار نہ کر سکیں۔ پھر اس کے علاوہ بلوچ بچوں کو پنجاب سمیت ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کی آزادی میسر ہے اور بلا کسی روک ٹوک کے وہ پڑھ رہے ہیں، پرائیویٹ سے لے کر سرکاری کالجز تک میں بلوچ طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، کیڈٹ کالجز سمیت ملک کی تمام بڑی یونیورسٹیوں میں بلوچوں کے بچوں کیلئے کوٹا رکھا جاتا ہے اور پھر اس کے ساتھ بلوچوں کے بچوں کو فیسوں میں خاص رعایت دی جاتی ہے، تعلیمی اداروں اور ہاسٹلز میں رہنے کیلئے اسپیشل درجہ دیا جاتا ہے۔
بلوچ طلبہ کی چھوٹی سے بڑی تمام خواہشات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے تا کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے ساتھ کوئی تعصب برتا جا رہا ہے ، رہائش گاہ کا انتظام اور گھروں کو واپس جانے کیلئے بلوچ طلبہ کے سفر کو سیکورٹی کے ساتھ آرام دہ بنایا جاتا ہے،تعلیم مکمل ہونے کے بعد ڈگری حاصل کرنیوالے بچوں کیلئے ملکی سطح پر تمام شعبوں میں خاص جابز رکھی جاتی ہیں،کرائی ٹیریا پر پورا اترنے والے بلوچوں کے بچوں کو ملک بھر کے مختلف شعبوں میں بھرتی کیا جاتا ہے۔
پنجاب کی میں خصوصا بات کروں گا کیوں کہ ماہرنگ بلوچ اپنے احتجاج میں پنجاب کو نشانہ بناتی ہیں تو میں کہنا چاہوں گا کہ پنجاب کے لوگوں میں کسی قسم کی کوئی نفرت کسی بھی قوم کے خلاف نہیں پائی جاتی۔ پنجاب میں پٹھان بھی کام کر رہے ہیں، بلوچ بھی کام کر رہے ہیں، سندھی بھی کام کر رہے ہیں اور نہ صرف کام کر رہے ہیں بلکہ بلا خوف و خطر کر رہے ہیں جو شاید کوئی دوسرا نہ کر سکے، پنجاب میں ہر دوسرا ہوٹل یا تو کسی پٹھان کا ہے یا بلوچ کا ہے۔ حکومت اور پنجاب کے لوگ بلوچوں کا خصوصی خیال رکھتے ہیں، انہیں پنجاب میں رہائش اور کاروبار کرنے کے مکمل مواقع اور سہولیات دیتے ہیں، حکومتی سطح پر ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ بلوچستان کے ساتھ فرق نہ رکھا جائے۔
 بلوچستان میں صحت، تعلیم اور کاروبار سمیت کوئی بھی سہولت کسی دوسرے صوبے سے کم نہیں ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تو ویسے بھی اب صوبے اپنے وسائل کو استعمال کرنے کے ذمہ دار خود ہیں، اٹھارہویں ترمیم کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وفاق نے ان کا حق کھا لیا یا وفاق نے ان کو حصہ نہیں دیا، تعلیم صحت سمیت اکثر محکمے اب صوبوں کے زیر اہتمام پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل کرنے میں آزاد ہیں ، اب کوئی بھی صوبہ یہ شکوہ نہیں کر سکتا کہ اس کا حق مارا جا رہا ہے یا اس کے وسائل کوئی دوسرا صوبہ کھا گیا ہے۔
 پھر گزشتہ 75سالوں میں ایسا بھی کبھی نہیں ہوا کہ بلوچستان کا وزیراعلی کوئی پنجابی بن گیا ہو ، بلوچ عوام اپنی قیادت خود منتخب کرتے ہیں ، جو لوگ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ وفاق ان کا حق نہیں دیتا تو پہلے ان بلوچ سرداروں سے پوچھا جائے جو 75سال سے وہاں اقتدار میں ہیں لیکن اپنے عوام کو وسائل سے محروم رکھا ہوا ہے جو انکے ساتھ زیادتی ہے۔ یہاں میں ان نام نہاد دانشوروں اور اہلِ قلم کو بھی یاد دلانا چاہوں گا کہ تمام رعایتوں اور سہولیات کی فراہمی کے برعکس یہ موقع پرست ٹولہ بلوچ قوم کا نام استعمال کرنے والے چند مٹھی بھر عناصر کے ناجائز پراپیگنڈے کا حامی بن جاتا ہے مگر کبھی کسی پنجابی کی شہادت پر نہیں بولتا۔ یہ فسادی ٹولہ پنجابیوں کی شہادت پر بی ایل اے کی مذمت تو نہیں کرتا اور نہ ہی کبھی ان پنجابی مزدوروں کے گھر گیا ہے، نہ ہی ان کی بیوائوں سے سوال کئے ہیں کہ ان پر کیا بیت رہی ہے۔ دراصل یہ فسادی ٹولہ دشمن کے ایجنڈے پر کام کر کے ملک کے خلاف، اداروں کیخلاف بلوچوں کو ورغلا کر ان سے ہرزہ سرائی کرانے کی سازشیں کرتا رہتا ہے تا کہ اپنی غیر ملکی آقاؤں کے ایجنڈے کو تقویت دے سکے اور اس کے ساتھ یہ  ٹولہ جو کسی ادارے سے بھی وابستہ نہیں ، یہ  ملکی مفاد کی بجائے جھوٹ بول کر ویوز کا دھندہ کرنے سے باز نہیں آرہا۔ اس طرح کے لوگوں کو صحافی کہنا بھی صحافت جیسے مقدس پیشے کی توہین ہے اور یہ لوگ کسی طور  بھی صحافی کہلانے کے حقدار نہیں۔ پوری قوم ایسے جھوٹے لوگوں کی مذمت کرتی ہے جنہیں ملک کی سلامتی اور خوشحالی برداشت نہیں ہو رہی۔  ایسے شرپسند لوگوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی تشخص بہتر ہو سکے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...