کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے

کور کمانڈرز کانفرنس نے فیصلہ کیا ہے کہ پاک فوج آئندہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کو مطلوبہ اور ضروری تعاون فراہم کریگی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کی زیرصدارت گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقد ہونیوالی 261ویں کورکمانڈرز کانفرنس میں دہشت گرد گروپوں کی پڑوسی ملک میں محفوظ پناہ گاہوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور دشمن قوتوں کے اشارے پر پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کیلئے کام کرنے اور انکی حوصلہ افزائی کرنیوالے عناصر کیخلاف طاقت کے ساتھ نمٹنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ کانفرنس کے شرکاء نے مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں کی عظیم قربانیوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور شہدائے پاکستان سمیت ڈیرہ اسماعیل خان حملے کے شہداء کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی۔ کورکمانڈرز فورم نے بالواسطہ اور بلاواسطہ خطرات کیخلاف پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کیلئے پاک فوج کے عزم کا اعادہ کیا۔ کانفرنس کے شرکاء￿ نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی پڑوی ملک میں محفوظ پناہ گاہوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان میں دہشت گردوں کو جدید ہتھیاروں کی دستیابی پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دی۔ فورم نے سمگلنگ‘ منی لانڈرنگ‘ بجلی چوری اور دیگر غیرقانونی سرگرمیوں کیخلاف جاری کارروائیوں کا بھی جائزہ لیا اور اس امر کا اظہار کیا کہ پاک فوج ایسے جرائم کی روک تھام کیلئے متعلقہ سرکاری اداروں کو ہر طرح کی مدد فراہم کرتی رہے گی۔ اسی طرح پاک فوج آئندہ عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کو مطلوبہ ضروری تعاون فراہم کریگی۔ آرمی چیف نے اپریشنز کے دوران پیشہ ورانہ مہارت کے معیار کو برقرار رکھنے اور ذہنی و جسمانی شعبوں میں فارمیشنز کی تربیت کے دوران بہترین کارکردگی کے حصول پر زور دیا۔ 
اس وقت اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشوں کی بنیاد پر ملک کی سلامتی کو جو سنگین خطرات لاحق ہیں اور قومی معیشت کی خراب تر ہوتی صورتحال نے ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کی ہر ڈکٹیشن قبول کرنے پر مجبور کر رکھا ہے‘ اسکے تناظر میں آج ادارہ جاتی ہم آہنگی اور قومی افہام و تفہیم کو فروغ دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہمیں گزشتہ پانچ سال کے دوران ناقص حکومتی پالیسیوں اور گورننس پر حکومت کی گرفت کمزور ہونے کے نتیجہ میں نہ صرف اقتصادی اور مالی بحرانوں سے دوچار ہونا پڑا جو عام آدمی کو عملاً زندہ درگور کرنے پر منتج ہوئے بلکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور قومی سیاست میں در آئے منافرت اور بلیم گیم کے کلچر نے ملک کی سلامتی کے درپے دشمن کے حوصلے بھی بلند کئے جسے پاکستان کی اندرونی کمزوریوں کو بھانپ کر دہشت گردی کے ذریعے اس وطن عزیز کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا بھی نادر موقع مل گیا۔ اس صورتحال میں قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کیلئے کڑا امتحان تھا کہ انہوں نے ملک کو درپیش چیلنجوں سے کیسے عہدہ براء ہونا ہے۔ 
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ پاک فوج میں قیادت کی تبدیلی کے ساتھ ہی ادارہ جاتی ہم آہنگی کی فضا استوار ہونے لگی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اندرونی خلفشار اور درپیش اقتصادی اور مالی بحرانوں سے ملک کو نکالنے کا بھی عہد کیا جس کیلئے ملک کی حکومتی سیاسی اور عسکری قیادتوں میں اتفاق رائے ہوا۔ اتحادیوں کی حکومت نے بھی اسمبلی کی میعاد پوری ہونے سے پہلے پہلے موثر قانون سازی کی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ عبوری بیل آئوٹ پیکیج کا معاہدہ کیا جس کی تکمیل کیلئے آنیوالے نگران سیٹ اپ کو ملک کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے اضافی اختیارات دیئے اور پھر نگران سیٹ اپ کی جانب سے افواج پاکستان کی معاونت سے ملک کی سلامتی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اقتصادی استحکام کی بھی جامع پالیسیاں طے کرلی گئیں۔ 
ان اقدامات سے ملک کو استحکام کی منزل کی جانب گامزن ہوتا دیکھ کر دشمن کے اوسان خطا ہونے لگے چنانچہ اس نے افغانستان کے راستے سے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کی نئی سازش تیار کی جس کیلئے اسے یقینی طور پر پاکستان کے اندر سے بھی سہولت کار دستیاب ہو گئے نتیجتاً دہشت گردی کی نئی لہر میں بالخصوص سکیورٹی فورسز کے افسران اور جوانوں کو ہدف بنایا جانے لگا۔ 
اسی بنیاد پر ملک کی سول اور عسکری قیادتوں نے غیرقانونی مقیم غیرملکیوں کو ملک سے نکل جانے کی ڈیڈ لائن دی جو درحقیقت افغان مہاجرین کی صفوں میں گھسے افغان اور دوسرے دہشت گردوں کے قلع قمع کی ڈیڈ لائن تھی۔ اسکے ردعمل میں ملک میں دہشت گردی کا سلسلہ مزید آگے بڑھتا نظر آیا تو عام انتخابات کیلئے بھی سنگین خطرات پیدا ہوتے نظر آئے۔ تاہم ملک کی سول اور عسکری قیادتوں نے ملک کی سلامتی اور سسٹم کی بقاء کیخلاف جاری تمام اندرونی اور بیرونی سازشیں پوری قوت کے ساتھ ناکام بنانے اور سسٹم کو کسی قسم کی گزند نہ پہنچنے دینے کا عزم باندھا جس سے انتخابات کے انعقاد کیلئے غیریقینی کی فضا بھی چھٹنے لگی اور چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 8 فروری کو انتخابات کا انعقاد پتھر پر لکیر بنا دیا تاہم انتخابات موخر کرانے کیلئے خانہ ساز سازشوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جس کا سیاسی اور عدالتی فورموں پر عندیہ ملتا رہتا ہے۔ 
گزشتہ روز پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے دہشت گردی کے حوالے سے 8 فروری کے انتخابات پر پھر سوال اٹھایا اور یہ تک کہہ دیا کہ انتخابات کی مہم کے دوران ان کا کوئی کارکن زخمی یا شہید ہوا تو اسکی ذمہ داری الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس سپریم کورٹ پر عائد ہوگی۔ یہ سوچ بادی النظر میں انتخابات سے گریز کی سوچ بھی ہو سکتی ہے جس کا یقیناً کوئی سیاسی پس منظر بھی ہوگا مگر اس کیلئے دہشت گردی کے خطرات کا سہارا لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 
اس صورتحال میں گزشتہ روز کورکمانڈرز کانفرنس میں جہاں عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو تمام مطلوبہ اور ضروری معاونت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا وہیں دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے اور انکے سہولت کاروں کو کیفر کردار کو پہنچانے کے عزم کا بھی اعادہ کیا گیا جو درحقیقت 8 فروری کے انتخابات کیخلاف کسی بھی سازش کو پنپنے نہ دینے کا ٹھوس عندیہ ہے۔ اس لئے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عملداری کیخلاف ملک کے بدخواہوں کی باسی کڑی میں کہیں پر ابال اْٹھ رہا ہے تو انہیں خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ ادارہ جاتی ہم آہنگی کی فضا میں اب جمہوریت کو ڈی ٹریک کرنے کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی۔

ای پیپر دی نیشن