کینسر ویسے تو ایک لاعلاج مرض ہے تاہم اس کی بروقت تشخیص کیلئے اگر مناسب طریقہ کار اور بروقت علاج شروع کردیا جائے تو ممکن ہے اس سے کافی حد تک بچا جاسکتا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق کینسر سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اصول فطری، متوازن غذا اور سادہ زندگی گزارنا اور غیر فطری طرزِ زندگی سے بچنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ باقاعدہ ورزش اور خصوصاً پان، چھالیہ، تمباکو اور گٹکے وغیرہ سے اجتناب بھی لازمی ہے۔
برطانوی ادارے جرنل نیچر کیمسٹری میں شائع ہونے والے نئے تحقیقی نتائج کے مطابق سائنسدانوں نے کینسر کے علاج کا ایک نیا ذریعہ تلاش کیا ہے جو لیبارٹری تجربات میں 99 فیصد تک مؤثر ثابت ہوا ہے۔
امریکا کے سائنسدانوں نے نیئر انفراریڈ لائٹ کے ذریعے امینو سیانائن مالیکیولز کو متحرک کیا جو کینسر زدہ خلیات کو تباہ کرنے میں کامیاب رہے۔
ان مالیکیولز کا استعمال ابھی بائیو امیجنگ کے لیے کیا جاتا ہے اور عموماً کینسر کی شناخت کے لیے ان کی مدد لی جاتی ہے۔
امریکا کی رائس یونیورسٹی، ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی اور ٹیکساس یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں اس دریافت کے بارے میں بتایا گیا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مخصوص مالیکیولز کینسر زدہ خلیات کو ختم کرنے میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ اس نئے طریقہ کار سے نئی مالیکیولر مشینیں تیار کرنے کا موقع ملے گا جن کو ہم نے مالیکیولر جیک ہیمرز کا نام دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ کار کینسر ختم کرنے والی پرانی مالیکیولر مشین فرنگا ٹائپ موٹرز سے 10 لاکھ گنا تیز ہوگا اور مالیکیولر جیک ہیمرز کو عام روشنی کی بجائے انفراریڈ لائٹ سے متحرک کیا جائے گا۔
اس نئے طریقہ کار کی آزمائش لیبارٹری میں بنائے گئے کینسر کے خلیات پر کی گئی اور 99 فیصد خلیات کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔
اس طریقہ کار کی آزمائش خون کے کینسر کی رسولی کا سامنا کرنے والے چوہوں پر بھی کی گئی تھی اور ان میں سے 50 فیصد جانور کینسر سے نجات پانے میں کامیاب ہوگئے۔ محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا ہے کہ یہ مالیکیولز کیسے کام کرتے ہیں۔
ان کے مطابق یہ پہلی بار دریافت ہوا ہے کہ مالیکیولر plasmon کو اس طریقے سے کینسر کے علاج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور ان کے ذریعے کینسر کے خلیات کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
پلازما سے مالیکیولز کو کینسر کے خلیات کی جھلی سے جڑنے کا موقع ملتا ہے جبکہ ایسا ارتعاش پیدا ہوتا ہے جس سے بیمار خلیات ختم ہوتے ہیں۔ محققین کے مطابق ابھی تحقیق ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہے مگر اب تک کے نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں۔