کیا اب بھی ”انقلاب“ میں شک ہے؟

”وہ آئے اور چھا گئے“ بلاشبہ اس محاورے کو مولانا طاہر القادری نے عملی شکل دی ہے مگر معترضین اسے کرامت کی بجائے اربوں روپے کا ”کرشمہ“ قرار دے رہے ہیں لیکن وہ یہ بھول رہے ہیں کہ کچھ تو خرچ ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ”بعض ناقدین کی جانب سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ اس ساری کھیکڑ سے کیا حاصل ہوا یہ ان غریبوں کے لئے مایوسی اور دل شکنی کا سبب بن رہا ہے جنہوں نے ایک ”مقصد عظیم“ کے لئے زیورات‘ گھر اور موٹر سائیکلیں‘ فروخت کر دی تھیں اور جو کچھ حاصل ہوا ہے اس کی روشنی میں یہ مقصد عظیم یہی کچھ ہے کہ وزیراعظم 16 مارچ سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کی ایڈوائس دیں گے اور نگران وزیراعظم کے لئے اپنی جانب سے دو نام اپوزیشن لیڈر کے سامنے رکھنے سے قبل ق لیگ‘ اے این پی اور ایم کیو ایم کی طرح مولانا طاہر القادری سے بھی مشورہ کریں گے جبکہ اپوزیشن لیڈر حضرت مولانا کی مشاورت سے حکومت کی جانب سے طے کردہ نام قبول کرنے کے آئینی طور پر پابند بھی نہیں ہیں بہرحال اس مقصد عظیم کے لئے زیورات بیچنے والے تو صرف اتنے ہی دکھی ہو سکتے ہیں کہ شادی بیاہ یا دیگر تقریبات کے موقع پر انہیں اپنی رفیقان حیات کے سوجے ہوئے چہرے دیکھنے پڑتے ہوں گے جب ان بیچاریوں کو زیور کے بغیر کان حجاب میں اور گلے عبا¶ں میں چھپانے پڑتے ہوں گے۔ البتہ یہ ضرور حضرت مولانا کی کرامت ہے کہ جن لوگوں نے جوش عقیدت میں اپنے گھر بیچ دئیے تھے ان میں سے ایک بھی کراچی سے پشاور تک بیوی بچوں کے ساتھ سڑک پر بیٹھا نظر نہیں آیا یقیناً اس کرامت نے انہیں ایسے گھر فراہم کر دئیے ہوں گے جو صرف انہیں اور حضرت والا کی نگاہ معجزہ بیان کو نظر آتے ہوں گے البتہ اصلی قربانی موٹر سائیکل بیچنے والوں نے دی ہے اب انہیں گھنٹوں بس سٹاپوں پر خجل خوار اور بسوں میں بھیڑ بکریوں کی مانند بیس منٹ کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں کرنا پڑتا ہو گا ان کی قلبی وبستگی کے لئے عرض ہے وہ کبیدہ خاطر نہ ہوں ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی مولانا طاہر القادری کی انتخابی اصلاحات کمیٹی کے سربراہ کنور دلشاد نے جو الیکش کمشن کے سابق سیکرٹری بھی ہیں یہ چشم کشا انکشاف کیا ہے کہ مولانا طاہر القادری اور حکومت کے مابین معاہدے کے نتیجے میں موجودہ اسمبلیوں کے 70 فیصد لوگ نااہل ہو جائیں گے جس کا مطلب ہے صرف 30 فیصد لوگ ہی اہل رہ جائیں گے جو آرٹیکل 63,62 کے تقاضوں پر پورا اتر سکتے ہوںگے اگر ان 70 فیصد میں اپوزیشن کے تمام ارکان شامل کر دئیے جائیں تب 70 فیصد کی تعداد پوری کرنے کیلئے خاصے دانے حکومتی بنچوں سے لینے پڑیں گے یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ وہ کون سے پردہ نشین ہوں گے البتہ یہ طے ہے ان میں مخدوم امین فہیم‘ قمر زمان کائرہ‘ فاروق نائیک‘ خورشید شاہ‘ چودھری شجاعت حسین‘ مشاہد حسین‘ حاجی عدیل‘ عباس آفریدی‘ فاروق ستار اور بابر غوری شامل نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ حضرات آرٹیکل 63,62 کے تقاضوں پر پورا نہ اترتے تو ان سے مذاکرات ہی کیوں کر ہو سکتے دو اور شخصیات جو ان میں شامل ہیں وہ صدر زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف ہیں اس حوالے سے یہ بارہ افراد رول ماڈل ہیں جو آرٹیکل 63,62 کے مطابق ہر طرح کی الائشوں سے پاک‘ نہایت ایماندار‘ دیانت دار‘ شرعی احکامات کے پابند ہیں اور یہ طے ہو گیا کہ آئندہ الیکشن میں وہی حصہ لے سکے گا جو ان جیسا ہو گا شکل صورت کے اعتبار سے نہیں بلکہ کردار کے لحاظ سے، یہ پاکستانی قوم کے لئے باعث فخر و اطمینان ہے کہ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ پاکستان میں ایک بھی 63,62 پر پورا اترنے والا نہیں ہے جبکہ ثابت ہو گیا کہ ایک نہیں ماشاءاللہ پورے بارہ موجود ہیں اب الیکشن کمشن کا کام بھی آسان ہو گیا ہے وہ صرف یہ جانچ پڑتال کرے گا کہ کاغذات نامزدگی داخل کرانے والا ان بارہ حضرات جیسا ہے یا نہیں ہے اگر ہے تو اہل ورنہ ظاہر ہے نااہل‘ اب اندازہ کیا جائے پوری پارلیمنٹ میںاور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں تمام کے تمام ارکان ان بارہ حضرات کی ہو بہو تصویر ہوں گے تو کیا پھر بھی کسی کو انقلاب میں شک ہو گا اور ملک کی جو حالت بنے گی کون ہے جو اس پر عش عش نہیں کرے گا کنور دلشاد کی ماہرانہ تحقیق نے پاکستانیوں کے لئے کس قدر خوشی کا سامان کر دیا ہے اس کے صلے میں عام پاکستانیوں کو ان کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ انہیں مظفر وارثی کے تجربوں سے نہ گزرنا پڑے۔

ای پیپر دی نیشن