پاکستان کے”شاہ رخ خان“۔۔۔!

Jan 30, 2013

مکتوب امریکہ…طیبہ ضیا

بھارتی اداکار شاہ رخ خان کے بیان کو پاکستان میں بڑا ویلکم کیا گیا ہے۔حاسدین اس بات پر خوش ہیں کہ ارب پتی ہیرو پریشان ہے، ناقدین اس بات پر مسرور ہیں کہ شاہ رخ خان کا غرور خاک میں مل گیاجبکہ دونوں ملکوں کے مذہبی مسلمان شاہ رخ خان کی مسلمانی سے خائف ہیں۔ بھارتی سپر سٹار کو ہم وطن ہندوﺅں سے شکایت ہے کہ وہ سیکولر کہلانے کے باوجود اسے مسلمانی کا طعنہ دیتے ہیں اور اسے ذہنی اذیت پہنچانے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے اور اب تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اسے پاکستان ہجرت کرنے کو کہا جاتا ہے۔ لیکن ”بہت دیر ہو گئی ہے۔ ٹرین تو چھوٹ چکی“۔ جن کے بزرگوں نے ہجرت کی، قربانیاں دیں، ان کی نسلیں آج ہندو کی غلامی سے آزاد ہیں لیکن جن مسلمانوں نے پاکستان کی مخالفت کی، ان کی نسلیں برسوں کی وفاداری کے باوجود ہندو کی غلام ہیں۔ بھارتی سپر سٹار کی ”بھڑاس“ نے ”دو قومی نظریہ“ کو تقویت بخشی اور پاکستان میں بسنے والے ”شاہ رخ خانوں“ کو باور کرا دیا کہ بھارت صرف ہندوﺅں کا ملک ہے۔ پاکستان میں ایسے کئی شاہ رخ خان آباد ہیں جو برائے نام مسلمان اور پاکستان مخالف ہیں۔ نیویارک میں ہندوﺅں اور سکھوں کی اکثریت آباد ہے۔ انڈین بازار چلے جاﺅ تو لگتا ہے کہ بھارت چلے گئے۔ امریکہ میں انڈین کمیونٹی کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ان لوگوں کی فطرت و عادات کا مشاہدہ اور تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ بھارتی مسلمانوں سے بھی میل ملاقات رہتی ہے۔ ان میں دو طرح کے مسلمان ہیں، ایک وہ جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو اپنی محرومیوں کا ذمہ دار قیام پاکستان کو ٹھہراتے ہیں۔ پاکستان سے محبت کرنے والے مسلمان‘ پاکستانیوں سے پیار کرتے ہیں جبکہ مخالفین کے ساتھ ایک نشست بھی بھاری ثابت ہوتی ہے۔ ان لوگوں کا شکوہ ہے کہ ہندو انہیں قیام پاکستان کا طعنہ دیتے ہیں اور ان کی حب الوطنی پر شبہ کرتے ہیں اور انہیں پاکستان ”دفع“ ہو جانے کو کہتے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کا اینٹی پاکستان طبقہ بھی دو طبقات میں منقسم ہے، ایک مذہبی اور دوسرا ”شاہ رخ خان“ ٹائپ مسلمان۔ مذہبی مسلمان صرف قیام پاکستان کے مخالف ہیں مگر اپنا مذہبی تشخص برقرار رکھے ہوئے ہیں جبکہ شاہ رخ خان ٹائپ طبقہ اپنی پہچان کھو چکا ہے۔ شاہ رخ خان ایسے امیر کبیر مسلمانوں سے ہندو قوم حسد کرتی ہے۔ ہندو دنیا میں خواہ کسی خطہ میں آباد ہے، پاکستانیوں کو ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ اسے مسلمانوں سے اتنا مسئلہ نہیں مگر پاکستان کے مسلمان اس سے آگے بڑھ جائیں، یہ اس سے برداشت نہیں ہو سکتا۔ پاکستانیوں کے خلاف حسد و کینہ ہندو کی فطرت ہے۔ ہندو کو قیام پاکستان کا کڑوا گھونٹ برداشت نہیں ہو رہا۔ سابق وزیراعظم بھارت واجپائی جب پاکستان آئے تو انہوں نے آخر کارکڑوا سچ اگل ہی دیا اور کہا ”ہم ملک تقسیم ہونے کے صدمے کو ابھی تک نہیں بھولے“۔۔۔ جبکہ قائداعظم ایسی فراخدل شخصیت نے فرمایا تھا ”ہندوﺅں اور مسلمانوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ لیکن میں نے متعدد بار یہ کہاہے کہ اختلافات کچھ بھی ہوں میرے دل میں ہندوﺅں کے خلاف یا کسی اور فرقے کے خلاف عداوت پیدا نہیں ہوتی“۔۔۔ بھارتی سپر سٹار کے خلاف تعصبانہ رویہ قائداعظمؒ کے اس فرمان کی ترجمانی ہے، جب آپ نے فرمایا تھا کہ ”آپ ہندو ہیں یا مسلمان پارسی یا عیسائی، میں آپ سے جو کچھ کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ مجھ پر جتنی چاہے تنقید کی جائے، جتنا بھی چاہے مجھ پر حملہ کیا جائے اور آج بعض حلقوں میں مجھ پر نفرت کا الزام بھی لگایا جاتا ہے لیکن میں اس کا قائل ہوںکہ وہ دن آئے گا‘ میری زندگی میں نہ سہی میری موت کے بعد ہی سہی۔ آج ہم ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کرتے لیکن وہ وقت جلد آئے گا جب آپ آزادی کا مفہوم سمجھ جائیں گے“۔ قائداعظمؒ ہندو کی فطرت کو بھانپ چکے تھے۔ آپ نے فرمایا ”ہمارا دین‘ ہماری تاریخ اور روایات غیر مسلموں کے سیاسی اور مذہبی حقوق کے تحفظ کی مضبوط ترین اور موثر ترین ضمانت ہیں۔ ان کے ساتھ زیادہ منصفانہ سلوک کیا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندو آزاد ہو جائیں اور ہم اپنے لئے بھی آزادی کے خواہاں ہیں“۔ شاہ رخ خان ایسے نام نہاد مسلمان اپنا نام بدل ڈالیں دھرم پتنی کو ہندو ہی رہنے دیں۔ بچوں کے نام ہندوانہ رکھیں۔ تب بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو ہندو مسلمان کے ساتھ کرتا چلا آرہا ہے۔ انڈیا پاکستان کاکوئی مسلمان شاہ رخ خان کی طرح ارب پتی بن جائے تو تنگ نظر ہندو کی ماں مر جاتی ہے۔ شاہ رخ خان کو پاکستان آنے کا طنزیہ دعوت نامہ دینے والے پہلے اپنے ملک کے شاہ رخ خانوں کا عقیدہ درست فرمائیں جو قیام پاکستان کو ایک بلنڈر قرار دیتے ہیں اور پاکستا ن کا مطلب لا الہ الا للہ کے نعرے کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ شاہ رخ خان اس پاکستان میں آنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا جس کی اپنی نسلیں بالی ووڈمیں سوتی جاگتی ہیں۔ شاہ رخ نے ”مائی نیم ازخان“ ایک بوگس فلم بنا کر اربوں پیسہ بنایا ہے مگر پیغام پہنچانے میں ناکام رہا۔ شاہ رخ خان جیسے مسلمان اسلام پر ایک تہمت ہیں۔ قائداعظمؒ نے پاکستان دے کر ہمیں ایسی تہمت سے نجات دلانے کوشش کی۔ قائداعظمؒ نے فرمایا ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ اور جدوجہد اس لئے کی تھی کہ ہم اپنی روایات کے مطابق اپنے معاملات کو حل کرنے میںجسمانی اور روحانی طور پر قطعََا آزاد ہوں“۔ (پاکستان کے شاہ رخ خان) خدا کا شکر کریں کہ وہ ایک آزاد ریاست میں سانس لے رہے ہیں اور ہندوﺅں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی حیثیت میں ہیں۔

مزیدخبریں