جمشید دستی نے چارج لینے آنے والے ایس ڈی او واپڈا کی مبینہ طورپر پٹائی کردی۔یہ تو بد نمائندگی کی حد ہوگئی ہے،جعلی ڈگری ہولڈر نے ہر کام میں جعلسازی شروع کردی،آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کے رگڑے میں تو آہی جائیں گے،ویسے اگر اس پر عمل ہوگیا تو پھر کئی افراد کے سروں سے بال اُڑ جائیں گے،حنا ربانی تو بہت خوش ہونگی کیونکہ دستی اب ان کے خلاف الیکشن میں کھڑا نہیں ہوسکے گا۔ایس ڈی او واپڈا بیچارہ کیا کرے جہاں اتنے بڑے بڑے مگر مچھ بیٹھے ہیں وہاں غیر جانبداری کے ساتھ فرائض کیسے سرانجام دئیے جاسکتے ہیں، جمشید دستی کہتے ہیں کہ ایس ڈی او کرپٹ ہے،جناب آپ نے جو اپنے ووٹرز سے دھوکہ کیا تھا اس کی آپ کو کیا سزا ملنی چاہئے قوم سے دھوکہ دہی الگ،ملکی خزانے سے پیسے کا ضیاع الگ ۔اتنے بڑے نقصان کرنے کے باوجود آپ کرپٹ نہیں ہوسکے،آخر کیا ماجرا ہے؟ یہ تو پھر قانون کو ہاتھ میں لیکر گلی ڈنڈا کھیلنے والی بات ہے....
آپ ہی اپنی اداﺅں پہ ذرا غور کریں
ہم اگرعرض کریں گے تو شکایت ہوگی
٭....٭....٭....٭....٭....٭
” بہاولپور جنوبی پنجاب“ میں شامل نہیں ہونگے۔میانوالی بچاﺅ تحریک شروع
خیبر پی کے بنا تو ہزارہ والے لنگوٹ کس کر میدان میں آگئے اب ” بی جے پی“ بنانے کیلئے بھاگ دوڑ شروع ہوئی تو میانوالی والوں نے احتجاج شروع کردیا ہے، ہم تو پہلے ہی خطرے کا الارم بجا رہے ہیں کہ اگر صوبوں کا پنڈورا بکس کھلا تو آدھا پاکستان صوبستان بن جائیگا،اب اگر ہزارہ والوں کی طرح میانوالی والوں نے الگ صوبے کا مطالبہ کردیا تومیانوالی کے سونامی خان نے پھر اس وعدے پر ووٹ حاصل کرنے کا نعرہ لگادینا ہے کہ آپ ووٹ دیں میں آپکو صوبہ دونگا۔جناب پھر تو کراچی والے بھی میدان میں کود پڑیں گے ،اصل مقصد ہی یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح صوبے بنانے کا لُچ شروع ہوتو ہم بھی اپنا لُچ تل سکیں۔علیحدگی کی تحریک شروع کریں۔ ہم نے تو پہلے ہی عرض کیا ہے کہ ” بی جے پی“ لیکر ڈوبے گا، لسانی بنیادوں پر کسی طرح بھی تقسیم درست نہیں ہے ورنہ جاگ پنجابی جاگ والے بھی میدان میں آجائیں گے اور عوام ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتیں گے لہٰذا فتنے کو دبانے کیلئے ضروری ہے کہ صوبوں کی تقسیم کو بند ہی رہنے دیں اسی میں عافیت ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭
” پنک سٹی“ جے پور کے ادبی میلہ میں شرکت کیلئے ا ٓنے والے طلبہ اور پروفیسروں کے وفد نے شکایت کی ہے کہ ان کے ساتھ جے پور میں ناروا سلوک کیا گیا جس کی وجہ سے وہ نفسیاتی اور مالی طورپر بہت پریشان رہے اور دہلی تاجے پور کے چکروں میں ان کے سارے پیسے بھی ختم ہوگئے۔ بھئی غلط ہے کہ ایک تو بھارت سرکار نے آپ کو راجو ںمہاراجوں کے شہر جسے دنیا بھر میں گلابی شہر یا پنک سٹی کہتے ہیں سے ادبی میلہ میں شرکت کی دعوت دی اور اب آپ اس کے طرز عمل پر شاکی ہیں۔آپ کو تو خوش ہوناچاہئے کہ آپ نے اسی بہانے دہلی اور جے پور دیکھ لیا اور اسکے ساتھ ہی آپ ان کی اصل ذہنیت اور اصلیت سے بھی آگاہ ہوگئے ۔ ان یاتریوں سے افسوس کرنے سے قبل ایک چھوٹا سا لطیفہ یاد آیا ۔”اک دیہاتی کسی میلہ میں گیا جہاں اپنا کمبل گم کر بیٹھا واپسی پر لوگوں نے اس سے پوچھا میلہ کیسا تھا تو وہ بولا میلے کا تو پتہ نہیں البتہ ان ٹھگوں نے میرا کمبل چوری کرنے کیلئے یہ سارا ناٹک رچایا تھا“۔ بھارت یاترا پر جانے سے قبل ان معصوم یاتریوں کو معلوم ہوناچاہئے تھا کہ بھارتی مہاجن سرکار کے طورطریقہ ابھی تک وہی ” بنیﺅں“ جیسے ہیں وہ سیکولر بھارت کے سپنے دکھا کر دنیا والوں کو بلاتے ہیں اور اسکے بعد ان کا کمبل لوٹ لیتے ہیں اسکو کہتے ہیں....
” رام نام چبنا پرایا مال اپنا“
اگر یہ یاتری بھی اپنی گرہ کس لیتے اور ” پنک سٹی“ کی رعنائیوں میں زیادہ نہ کھوجاتے تو شاید کچھ دھیلے بچا سکتے تھے۔اب وہ جو بھارت کو کوس رہے ہیں تو ان کی بھول ہے کہ اس پر کوئی اثر ہوگا بلکہ وہ شریمان جی تو بہت ڈھیٹ ہیں اور مسکراتے ہوئے غالب کا یہ شعر گنگنارہے ہوں گے....
کتنے شیر یںہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
پھر بھی بھارت یاترا پر جانے والے شکر کریں ان کو مہاشوں نے اُگر وادی نہیں سمجھ لیا۔
٭....٭....٭....٭....٭....٭
امریکی ریاست اوٹاہ میں ایک ہونہار آرٹسٹ نے برف سے ایسے خوبصورت 25فٹ بلند قلعے بنائے ہیں جن میں رات کو جب لائٹنگ کی جاتی ہے تو وہ پریوں کے محل نظر آتے ہیں۔حیرت ہوتی ہے جب ہم ایسی چیزوں کے بارے میں پڑھتے ہیں یا دیکھتے ہیں جو اس سے پہلے ہم نے صرف بچوں کی کہانیوں میں پڑھی تھیں۔کوہ قاف، پریاں،محلات ،جن، دیوﺅں اور خوبصورت شہزادوں کی باتیں یہ سب اب مغرب میں حقیقت کا روپ دھا رہی ہیں اورہم حیرت سے صرف منہ کھول کر انہیں دیکھتے رہ جاتے ہیں۔شاید اسی لئے فارسی میں کسی نے کیا خوب کہا ہے ....
صد سال سفرکردم من مست ناشندم
کیا بار کہ تو دیدم دیوانہ شدم
” میں نے صدیوں سفر کیا مگر میں مست نہ ہوسکا تجھے ایک بار کیا دیکھ لیا کہ میں دیوانہ ہوچلا ہوں“۔ ایسی حیرت انگیز چیزیں وہی بناسکتے ہیں جن کے جذبے رعنا ہوں عزم جواں ہو ایک ہم لوگ بے چارے ہیں کہ ہمیں ہمارے حکمرانوں نے بھوک اور بے روزگاری کے جنگل میں اس طرح بھٹکا دیا ہے کہ اب ہم جیسے ” راہ گم کردہ“ لوگوں کے عزم اور حوصلے بھی پست ہوچلے ہیں۔کاش ہمیں پھر کہیں سے ایسے قابل حکمران اور صاحب نظر صاحب دل راہنما نصیب ہوجائیں جو ہمارے حوصلوں اور جذبوں کو جواں کردیں اور ہم بھی اسی طرح اپنے وطن کو پریوں کا دیس، دنیا کی جنت بنادیں جہاں عدل و انصاف اور خوشحالی کی روشنیاں بکھری ہوں ورنہ اقبال کا گلہ صحیح تھا....
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں وہی تبریز سے ساقی
بدھ ،17 ربیع الاوّل ‘ 1434ھ ‘30 جنوری2013 ئ
Jan 30, 2013