واشنگٹن؍کابل (اے پی اے) امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق افغان جنگ ایک ایسی جنگ ہے جو اب اپنی مقصدیت کھو چکی ہے۔ امریکی فوجیں افغانستان میں 2001ء سے موجود ہیں۔ جن کا ابتدائی مشن القاعدہ کو تباہ کرنا تھا اور یہ مشن بْہت پہلے حاصل کیا جا چْکا ہے۔ البتہ وہاں طالبان موجود ہیں لیکن القاعدہ کے برعکس یہ مقامی لوگ ہیں جو بظاہر ابھی ڈٹے ہوئے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اْن کے پاس خود کْش بمباروں کی لا محدود رسد موجود ہے۔ اخبار کے مطابق یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ آتے کہاں سے ہیں اور اْن کے ہاتھوں افغانوں اور غیر ملکیوں کی قتل و غارت برابر جاری ہے جیسے کہ حال ہی میں کابل کے ایک لبنانی ریستوران میں جس کے بیشتر گاہک مغربی لوگ ہیں۔ بم دھماکے میں 21 افراد کا خْون ہوا۔ حملہ آور بندوق بردار کی آمد سے پہلے خود کْش دھماکہ ہوا تھا۔2009 ء میں صدر اوباما نے افغان جنگ میں زیادہ امریکی فوجی جھونکنے کا حکم ضرور دیا تھا لیکن اْس وقت یہ ظاہر تھا کہ وہ اس جنگ کو طْول نہیں دینا چاپتے تھے۔ یہ جنگ اوباما نے نہیں بلکہ جارج بْش نے شروع کی تھی جسے بلا سوچے سمجھے بیچ میں چھوڑ کر وہ صدّام حْسین کے پیچھے پڑ گئے تب سے یہ جنگ جاری ہے اور اب عراق کی طرح احمقانہ لگتی ہے۔ اوباما نتظامیہ کا اصرار ہے کہ افغانستان میں دس ہزار امریکی فوجی اس بنا پر موجود رہنے چاہئیں کہ یہ ملک دوبارہ دہشت گردوں کا اڈّہ بن سکتا ہے اور امریکی سہارے کے بغیر افغان فوج پسپا ہو سکتی ہے جس کے بعد طالبان پھر سے اقتدار حاصل کر سکتے ہیں اور خواتین اور لڑکیاں دوبارہ زن بے زار درندوں کے رحم و کرم پر ہونگی۔
افغان جنگ مقصدیت کھو چکی، طالبان اب تک امریکہ کیخلاف ڈٹے ہوئے ہیں: واشنگٹن ٹائمز
افغان جنگ مقصدیت کھو چکی، طالبان اب تک امریکہ کیخلاف ڈٹے ہوئے ہیں: واشنگٹن ٹائمز
Jan 30, 2014