اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) حکومت کی طرف سے شدت پسندوں کے ساتھ روابط استوار کرنے کیلئے چار رکنی کمیٹی کی ہیئت ہی یہ واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ اس کوشش کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ کمیٹی کے کچھ ارکان شدت پسندوں کے بعض گروپوں سے رابطہ کرانے میں مفید ثابت ہو سکتے ہیں لیکن ان سے ایسا کوئی رکن نہیں جو تمام شدت پسند گروپوں کو مذاکرات کے دائرہ میں لا سکے۔ میجر (ر) عامر کو انٹیلی جنس امور کا وسیع تجربہ ہے۔ اب بھی انکے رابطے اور حلقہ احباب بہت وسیع ہے۔ وہ ملا فضل ا للہ کے ساتھ خوش اسلوبی سے بات کرسکتے ہیں لیکن شمالی و جنوبی وزیرستان، اورکزئی اور کرم ایجنسی میں شدت پسندوں کی نئی نسل کیلئے وہ اجنبی ہیں۔ رستم شاہ مہمند بلا شبہ قبائلی امور اور پاک افغان تعلقات کے ماہر ہیں لیکن وہ صرف مہمند ایجنسی کے شورش پسند ولی محمد کیلئے موثر ہوسکتے ہیں۔ رہے رحیم اللہ یوسفزئی، وہ یقیناً ماہر صحافی ہیں، پہلے بھی اس کوشش میں شامل ہونے سے معذرت کرچکے ہیں اب نہ جانے کیوں کمیٹی کے رکن بن گئے ہیں۔ کمیٹی کے چوتھے رکن عرفان صدیقی وزیراعظم کے معتمد ہوسکتے ہیں لیکن انہیں شدت پسندوں سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہیں۔ اس صورتحال کا اہم پہلو یہ ہے کہ کمیٹی کے تین ارکان کا تعلق صوبہ خیبر پی کے سے ہے تو ملک بھر میں کارروائیاں کرنے والے پنجابی طالبان کے ساتھ کون بات کریگا۔ پنجابی طالبان کی ساخت، انکے ذیلی گروپوں، انکی تشکیل میں شامل مسلکی،فرقہ وارانہ عوامل، فاٹا میں مقیم بااثر پنجابی اور سرائیکی خاندانوں و شخصیات کا جامع علم رکھے بغیر شدت پسندوں کے اہم ترین دھڑے کے ساتھ بامقصد بات کیسے ہو سکتی ہے۔ متعلقہ حکام بخوبی جانتے ہیں کہ کراچی کے علاوہ ملک بھر میں اکثر کارروائیوں کیلئے قبائلی شدت پسندوں کو پنجابی و سرائیکی شدت پسندوں کا ساتھ درکار ہے ورنہ وہ مقامی کارندوں، انٹیلی جنس معلومات کے حصول اورکارندوں کے قیام و طعام جیسے مسائل سے بھی ازخود نہیں نمٹ سکتے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ قبائل، بطور خاص شمالی وزیرستان کے داوڑ اور اتمان زئی قبائل کو کون اپنے ہاں مقیم غیرملکی شدت پسندوں کو باہر نکالنے پر راضی کریگا؟ بتایا جاتا ہے کہ ان غیر ملکیوں میںعربوں کا رویہ مفاہمانہ ہے لیکن وسط ایشیائی جنگجو کسی کے قابو میں نہیں ہیں۔ ملکوں اور پولیٹیکل ایجنٹ کے موثر نظام کی موجودگی میں قبائل سے بات ہو سکتی تھی لیکن اب تو ملک بھی موجود نہیں ہیں۔
کمیٹی میں کوئی ایسا رکن نہیں جو تمام شدت پسندوں کو مذاکرات پر لاسکے
Jan 30, 2014