اس ہفتے امریکی صدر اوباما کا ہندوستان کا دورہ غیرمعمولی تھا۔ اوباما پہلے امریکی صدر ہیں جو نہ صرف اپنے دور حکومت میں دو دفعہ ہندوستان آئے بلکہ ہندوستان کی قومی پریڈ میں بھی حصہ لیا جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ہندوستان نے اس سے پہلے امریکی سابقہ صدر بل کلنٹن کو نیشنل ڈے پریڈ میں حصہ لینے کی دعوت دی تھی جس کو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ امریکی صدر اوباما کے ہندوستان کے حالیہ دورے کے تین بڑے مقاصد تھے۔ ایک تو یہ کہ امریکہ ہندوستانی منڈی کو اپنے معاشی مفادات کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت امریکہ اور ہندوستان کی کوئی 100 ارب ڈالرز کی دوطرفہ تجارت ہے جو وہ 500 ارب ڈالرز سالانہ تک لے جانا چاہتے ہیں۔ اسکے علاوہ ہندوستان امریکی فوجی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ امریکہ کا دوسرا بڑا مفاد سٹرٹیجک ہے۔ وہ صرف جنوب ایشیاء نہیں بلکہ پورے ایشیا میں ہندوستان کو خصوصاً چین کیخلاف ایک بڑا ماسٹر بنانے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہندوستان‘ جاپان اور آسٹریلیا کا ایسا سٹرٹیجک اتحاد قائم ہو جو چین کی نیپال‘ سری لنکا اور گوادر تک بنائے گئی بندرگاہوں کے تسلسل جس کو String of Pearls یا موتیوں کی مالا کہا جاتا ہے‘ توڑا جا سکے۔ اس طرح مشرق میں بحرااوقیانوس سے لیکر مغرب میں خلیج فارس تک اور شمال میں کوہ ہمالیہ سے جنوب میں بحرہند کے دیگوگارشیا جزیروں تک امریکہ چین کا نہیں بلکہ ہندوستان کا پلہ بھاری دیکھنا چاہتا ہے۔ امریکی صدر کے حالیہ دورے کا تیسرا مقصد سیاسی بھی تھا چونکہ امریکہ میں بھی 30 لاکھ ہندوستانی کام کرتے ہیں جس میں سے بہت سارے صنعت و تجارت اور میڈیا میں اہم عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی انکے ووٹوں اور انکی طرف سے سیاسی جماعتوں کیلئے مالی معاونت بھی درکار ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کا ہندو بنیا امریکی ینیکی سے بہت زیادہ ہوشیار ہے۔ اس کی اگر امریکہ سے باہمی تجارت 100 ارب ڈالر ہے تو چین سے اس سے بھی زیادہ ہے۔ ہندوستان اگر اپنے گولے بارود کا 40 فیصد امریکہ سے خریدتا ہے تو وہ 30 فیصدی خریداری روس‘ 17 فیصدی خریداری فرانس اور 4 فیصد کی خریداری اسرائیل سے بھی کرتا ہے۔ ہندوستان کی امریکہ سے دوستی کے باوجود چین اور روس سمیت دوسرے ممالک سے بہتر تعلقات ہندوستان کی اعلیٰ سفارتکاری کی نمایاں مثال ہیں۔ ہندو اپنے سارے انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھتا۔ جغرافیہ بھی ہندوستان کو بڑے فائدہ دیتا ہے۔ شمال میںہمالیہ کی فلک بوس پہاڑیوں کی دیوار ہے۔ جنوب میں بحر ہند ہے اور مشرق میں دریائوں کے گھنے نیٹ ورک کے علاہ طفیلی ممالک کی ایک مالا ہے۔ ہمیں اس میں شک نہیں کہ امریکہ اور ہندوستان دونوں ناقابل اعتبار ساتھی ہیں۔ دہشت گردوںکو ہیرو اور ہیرو کو دہشت گرد بنانا انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان کو امریکی صدر کے اس دورے کو کیسے لینا چاہئے اور ہمارے لئے اس صورتحال میں کیا اسباق ہیں۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ عام حالات میں دو ممالک کے دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کیلئے دورے کرنے پر کسی ملک کے معترض ہونے کا کوئی جواز نہیں۔ امریکہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اور ہندوستان کو چین کے مقابلے میں ہر لحاظ سے مضبوط دیکھنا چاہتا ہے‘ لیکن اس مسئلہ پر پاکستان کے بہت ہی سنجیدہ تحفظات ہیں۔
1۔ ہمیں کوئی شک نہیںکہ ہندوستان کو امریکی اسلحہ کی سپلائی چین کیلئے کم اور پاکستان کیلئے زیادہ سکیورٹی خطرات میں اضافہ کر رہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان نے پاکستان کو دولخت کیا تھا اور اب بھی وہ افغانستان کے راستے پاکستان کے گھیرائو پر کام کر رہا ہے۔
2۔ اسی طرح امریکہ کی طرف سے ایک ایسے ملک کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی سفارش جو اقوام متحدہ کی قرادادیں ماننے سے انکاری ہے‘ ناقابل فہم ہے۔ کشمیریوں کے خون سے ہاتھ رنگ کر دنیا کے امن کے مقاصد کیلئے قائم کئے گئے ادارے کی محدود کابینہ (سکیورٹی کونسل) میں ہندوستان کو بٹھانا انسانی حقوق کے قتال کے مترادف ہوگا۔ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا اگر کوئی حقدار ہے تو وہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل 57 ممالک میں واحد ملک پاکستان ہے جو ایٹمی طاقت ہے اور پوری مسلم امہ کی نمائندگی بھی کر سکتا ہے۔
3۔ ہندوستان نےNPT پردستخط نہیں کئے ہوئے اس لئے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں وہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ سے پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی کیلئے بھی ایٹمی پرزے حاصل نہیں کر سکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ امریکی ری ایکٹر خریدتا بھی ہے تو اسکے سیف گارڈ اور ساری پراسیسنگ کی کارروائی پر دھیان رکھنا ضروری ہے۔اگر ہندوستان پر IAEA جیسی بین الاقوامی ایجنسیوں نے دھیا ن نہ رکھا تو انرجی کیلئے استعمال ہونیوالے ری ایکٹروں کے Waste Material کو Recycle کرکے ہندوستان پلوٹونیم پیدا کر سکتا ہے‘ ایٹمی ہتھیار بنانے کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا‘ ایٹمی جنگ کے خطرات موجود رہیں گے اس لئے یہ اندیشہ ہے کہ ہندوستان اپنے ایٹمی ہتھیار پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔
جنوب ایشیا میں اگر کسی ملک نے امریکہ کے ساتھ سب سے زیادہ تعاون کیا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ اس تعاون کی پاکستان نے جو قیمت ادا کی ہے اس کی بھی کوئی مثال نہیں۔ امریکہ کا عراق کے بعد اگر کوئی بڑا سفارتخانہ ہے تو وہ بھی پاکستان میں ہے۔ اسلام آباد کی امریکی ایمبیسی کو کئی ماہرین ایک بڑا فوجی اڈا سمجھتے ہیں۔ ایک رپورٹ کیمطابق اسلام آباد کے قریباً 200 گھروں میں بھی امریکی رہائش پذیر ہیں۔ وہ پاکستان ہی تھا جس نے امریکہ اور چین کا ملاپ کروایا۔ ان سارے حالات کے باوجود امریکی صدر کا پاکستان کے ساتھStep Motherly سلوک امریکہ کی عاقبت نااندیشی ہے۔ امریکی صدر کے پاکستان کا دورہ نہ کرنے سے پاکستان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کچھ عرصے بعد شاید روسی صدر پیوٹن یا چینی صدر آکر یہ کمی پوری کر دے۔ اصل نقصان پاکستانیوں کی نظر میں امریکہ کی ساکھ کا ہے۔ امریکہ کو صرف چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور عسکری قوت نے پاگل کر رکھا ہے۔ نریندر مودی کی پیٹھ پر تھپکیاں دراصل ایک ایسے دہشت گرد کو شاباش تھی جس کے ہاتھ تقریباً 1000 گجراتی مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں۔
5۔ صدر اوباما نے اپنی جذباتی تقریر میں ہندوستان کو افغانستان میں اپنا بڑا مددگار اور حمایتی بھی کہہ ڈالا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ افغانستان کے غیور عوام نے اگر ایک لاکھ ستر ہزار امریکی اور نیٹو افواج کو ناکوں چنے چبوائے تو پاکستان کیخلاف جاسوسی میں ملوث ہندوستانی کارندوں کو وہاں کون رہنے دیگا۔ ہندوستان نے اگر افغانستان کے ساتھ تجارتی رشتے بڑھانے ہیں تو اس پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں‘ لیکن قندھار اور جلال آباد کے کونسل خانے جو دراصل جاسوس گھر ہیں‘ فوراً بند کرنے ہونگے اور بلوچستان میں مداخلت بند کرنا پڑیگی۔
قارئین مذکور بالا صورتحال سے جو اسباق پاکستان حاصل کر سکتا ہے‘ وہ یہ ہیں۔
1۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ ہم نے ہر حالت میں جیتنی ہے‘ لیکن اس میں فتح حاصل کرنے کی ساری ذمہ داری عسکری ادارں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ اس کیلئے قومی یکسوئی اولین شرط ہے۔
2۔ توانائی کے بحران کے خاتمے اور معاشی بحالی سے ہمارے سکیورٹی کے ادارے بھی مالی لحاظ سے مضبوط ہونگے اور جرائم میں کمی آئیگی اس لئے دہشت گردی کیخلاف جنگ کیساتھ ساتھ معاشی بدحالیوں کیخلاف نبردآزما ہونا بھی ضروری ہے۔
3۔ پچھلے کئی عشروں سے ہماری غیرمعیاری سفارتکاری نے ہمیں بین الاقوامی تنہائی کی طرف دھکیلا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس میدان میں بولڈ اقدامات اٹھائیں۔ چین اور روس کے صدور پاکستان کا دورہ کریں اور سعودی عرب کی نئی قیادت سے مل کر مسلمان ممالک کی چوٹی کی کانفرنس بلائی جائے تاکہ مشرق وسطیٰ کے مسائل حل کرنے کی بات ہو۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری لانے میں پاکستان ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔