اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ آن لائن) سپریم کورٹ نے کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو ’’زندہ جلا دینے‘‘ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں آئی جی پنجاب کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ واقعہ کے وقت موقع پر موجود پولیس اہلکاروں کیخلاف محکمانہ کارروائی مکمل کرکے ایک ماہ میں رپورٹ پیش کی جائے، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور متعلقہ اداروں کو کس بات کا خوف یا ڈر ہے۔ حقائق پر مبنی تفتیش نہیں کی جا رہی۔ پولیس افسروں اور اہلکاروں کے بیانات میں تضاد ہے، پہلے تو یہ پتہ چلنا چاہئے کہ واقعہ سے قبل کس پولیس افسر یا اہلکار کو اطلاع دی گئی اور اطلاع ملنے کے بعد پولیس نے کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا۔ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے موقف اختیار کیا کہ اے ایس آئی عبدالرشید کو واقعہ کے بارے میں ایک روز قبل علم ہوگیا تھا لیکن اے ایس آئی نے کہا کہ آئی جی او رڈی پی او عدالت کے ڈر سے یہ بات کر رہے ہیں۔ اے ایس آئی عبدالرشید نے کہا کہ ان کے چوکی انچارج کوصبح کے وقت واقعہ ہونے کے بعد اطلاع ملی اور چوکی انچارج نے انہیں موقع پر بھیجا وہ پانچ پولیس اہلکار تھے جب وہ وہاں پہنچے تو مشتعل لوگوں نے انہیں پکڑ کر دبوچ لیا اور تشدد کا نشانہ بنایا، کپڑے پھاڑ دیئے۔ چیف جسٹس نے آئی جی سے کہا کہ اس کے پہلے اور آج کے بیان میں تضاد ہے۔آئی جی نے بتایا کہ انکوائری ٹیم نے اے ایس آئی کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کو ایک روز قبل علم ہوگیا تھا تاہم آج کا بیان اس کا اپنا موقف ہے۔ سابق ڈی پی او جواد قمر نے کہا واقعہ کے بعد وہاں گئے تو مختلف مساجد میں اعلانات ہو رہے تھے اور لوگ مشتعل تھے، نعرے بازی ہو رہی تھی، پولیس فائرنگ نہیں کر سکتی تھی، مشتعل ہجوم کا قریب واقع مسیحی بستی پر حملہ کا بھی خطرہ تھا، ان حالات میں مشتعل لوگوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا، بہت زیادہ جانی مالی نقصان ہوتا۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ پولیس کا کام ہے۔ آئی جی نے کہا کہ اگر عدالت مطمئن نہیں تو جوڈیشل کمشن تشکیل دیدیا جائے۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ایک افسر دوسرے پر بات ڈال رہا ہے، مسیحی جوڑے کو زندہ جلایا گیا اور موجود مسلح پولیس دیکھتی رہی۔ کون کس سے ڈر رہا ہے اور کس سے نہیں یہ تو وقت بتائے گا۔