واشنگٹن (اے پی پی) امریکی فوج کے ریٹائرڈ جرنیلوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسیاں اس کے اتحادیوں کو مخمصے میں ڈال رہی ہیں جس کے باعث امریکہ افغانستان اورمشر ق وسطیٰ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ہار سکتا ہے۔ مقامی انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹ آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر سابق کمانڈر یو ایس سنٹرل کمانڈ جنرل جیمز مارٹن نے کہا ہے کہ امریکہ کو اپنی قومی سلامتی کی حکمت عملی کو ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ سابق آرمی وائس چیف آف سٹاف جنرل جان کین نے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوج کو 2016ء کے بعد بھی رکھنا چاہئے کیونکہ افغان فورسز میں طالبان جیسی تلخ حقیقت کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں۔ ایڈمرل ولیم فولن جوسینٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں نے صدر اوباما کی ایک افغانستان میں مقررہ تاریخ میں جنگ کو ختم کرنے کے اعلان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ایسا ٹھیک نہیں ہوگا۔ تینوں ریٹائرڈجرنیلوں نے سینٹ کی دفاعی کمیٹی کے سامنے واضح طور پر کہا کہ امریکی حکومت اصل اقدامات کرنے بجائے دنیا میں ہونے والے واقعات کے ردعمل میں کام کر رہی ہے۔ ہمیں ردعمل کے بکس سے نکل کر اپنی اقدار کا دفاع کرتے ہوئے سخت اور سٹریجٹک موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جنرل کین نے یہ بھی کہا کہ عراق اور شام پر فضائی حملوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ان جرنیلوں نے کہاکہ ہم ان معمولی کوششوں میں جھٹے ہوئے ہیں جس سے ہم ایک بنیاد پرست گروپ سے نبردآزما ہونے کے بعد دوسرے گروپ سے لڑنا شروع کر دیں گے اور اس کا کوئی آخر نہیں ہوگا۔ جنرل جیمز میٹس نے صدراوباما کے سعودی عرب جانے اور عراقی وزیراعظم نورالمالکی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کیلئے دبائو ڈالنے کے فیصلوں کو سراہا اور دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن سمیت عرب ممالک خطے میں اوباما انتظامیہ کی پالیسیوں کے بارے میں کنفیوژ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تل ابیب سے قاہرہ، ابوظہبی سے ریاض اپنے بہت سے دوستوں کو مایوس کیا ہے۔ جنرل کین نے کہا کہ امریکہ کی ’’پالیسی آف ڈس اینگیجمنٹ‘‘ صرف انتہا پسند گروپوں جیسے کے داعش اور القاعدہ کو استحکام دے گی۔ امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں اور ان مسلمان خطوں کے ساتھ متحد و مضبوط رہنا چاہئے جو انتہا پسندی کے مخالف ہیں۔