”لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر، کیا کیجئے“

آج صبح نیٹ کھول کر اپنا فیس بک اکاﺅنٹ ”لاگ آن“ کیا تو ایک دوست کی پوسٹ نے گویا جگر چھلنی کر دیا ”ہم دشمن کے بچوں کو پڑھانے چلے تھے مگر دشمن نے ہمارے سکول ہی بند کرا دئیے۔“ سانحہ¿ باچا خان یونیورسٹی کے بعد سوشل میڈیا پر ہماری سکیورٹی کے معاملات تنقیدی نشتروں کی زد میں ہیں۔ اس سانحہ کے اگلے ہی روز سوشل میڈیا پر چلنے والا ایک فقرہ زبانِ زدِ عام ہو گیا تھا ”دشمن کے بچے اتنے تیز ہیں کہ صرف ایک سال ایک ماہ میں سکول سے یونیورسٹی تک پہنچ گئے، آپ دشمن کے بچوں کو اور پڑھائیں۔“ جناب بات چل نکلتی ہے تو کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے۔ جب ملک کی فضا ایسی بنی ہوئی ہو کہ ہمارے حکمران، سیاستدان اور سپہ سالار دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد یہی رٹا رٹایا فقرہ دُہراتے نظر آئیں کہ آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ جاری رہے گی اور ہمارے ان سارے قائدین کے اس عزم کا اظہار سکیورٹی اداروں کے کسی محفوظ مقام پر دہشت گردی کی کسی نئی واردات کو صورت میں مل جائے تو جناب مان لیجئے کہ سب اچھا ہر گز نہیں ہے اور ہماری پالیسیوں اور اقدامات میں کہیں نہ کہیں کوئی جھول، کوئی بے تدبیری، کوئی عاقبت نااندیشی ضرور موجود ہے کہ ہمارے دشمن کے بچے ہماری پڑھانے کی ترغیبات کو خاطر میں ہی نہیں لا رہے اور ہماری دکھائی جانے والی راہِ راست انہیں اور ان کے سرپرستوں کو وارا ہی نہیں کھا رہی۔ آخر کچھ تو ہے کہ ہماری ہر تدبیر اُلٹی ثابت ہو رہی ہے۔ 

میرے ایک دیرینہ مہربان نے میرے گزشتہ دنوں کے کالموں پر مجھے کوسنے دیتے ہوئے کہا کہ آپ ملک کی خراب عکاسی کر کے کیوں مایوسی پھیلا رہے ہیں، کبھی ہم وطنوں کو ملک کا اچھا چہرہ بھی دکھا دیا کریں۔ یہ فلسفہ ہے رجائیت پسندی کو اجاگر کرنے والا۔ جیسے آدھے خالی گلاس کو آدھا بھرا ہُوا دکھایا جائے مگر یہ فلسفہ تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے والا ہے۔ موت سامنے کھڑی ہو اور آپ آنکھیں بند کر کے تصور کر لیں کہ بس موت اب ٹل گئی ہے۔ نہیں بھائی صاحب! حقائق کا سامنا کر کے اور جانچ پرکھ کر کوئی پالیسی بنائی جائے گی اور پھر اس پر عمل بھی کیا جائے گا تو مشکلوں سے نکلنے کے راستے بھی نکلتے جائیں گے ورنہ پشیمانی ہی پشیمانی ہے تو کیوں نہ حقائق کو تسلیم کر کے اپنی غلطیوں پر قابو پانے کی تدبیر کی جائے ۔ سب اچھا ہے کی چادر تانے رہو گے تو اندھی کھائی میں جا گرو گے، پھر کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
خدا لگتی کہئے دہشت گردی کے خاتمے کی ہماری تدبیریں کارگر ثابت ہو رہی ہیں یا دہشت گردی کے منصوبہ سازوں کو ہماری ساری کمزوریوں کی خبر دے رہی ہیں؟ ملک میں خوف و ہراس پھیلانا اور اس وطنِ عزیز میں خوفزدہ چہرہ دکھانا ہی تو دہشت گردوں کی اصل حکمتِ عملی ہے۔ ہم بہادر، جرّی اور مشّاق فوج والی مملکت کا اپنا تصور دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں مگر دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد بے تدبیری کے ساتھ اٹھائے جانے والے ہمارے اقدامات ہمارے چہروں پر خوف کی تریڑیاں اُمڈتی ہوئی دکھا جاتے ہیں۔ سو آج وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ چھوٹی موٹی دھمکیوں پر سکول بند کرنا مناسب نہیں۔ جناب صرف سکول بند کرنا ہی مناسب نہیں بلکہ سکیورٹی کے بے ڈھنگے انتظامات کرا کے مساجد، تعلیمی اداروں، سکیورٹی کے اداروں اور دوسرے پبلک مقامات کو عملاً جیل خانوں میں تبدیل کرنا بھی ہرگز مناسب نہیں۔ دشمن تو یقیناً ہماری اس حواس باختگی پر طنزیہ قہقہے برساتا اور بغلیں بجاتا ہو گا۔ ہم دشمن کو آخری کونے تک تکلیف سے دوچار کرنے کے داعی ہوتے ہیں مگر ہَوائیاں ہمارے اپنے چہروں پر اُڑتی نظر آتی ہیں جبکہ ادارہ جاتی سکیورٹی انتظامات کے سرکاری احکامات ”جھلڑ“ پولیس اہلکاروں کے لئے متعلقہ اداروں اور عوام کو تنگ اور ہراساں کرنے کے لئے بہترین ہتھیار بن جاتے ہیں۔ عوام اور اداروں کو دہشت گردوں نے انسانی خون کی ندیاں بہا کر خوفزدہ کیا ہوا ہے تو ان خون کی ندیوں کو روکنے کے بہانے لوگوں کو بلاجواز تنگ کرنے کے لئے پولیس اور دوسرے سکیورٹی اہلکاروں کو سرچ اپریشن اور اداروں کو سربمہر کرنے کی صورت میں دئیے گئے اختیارات کے ہتھیار نے عوام کا جینا ہی دوبھر کر دیا ہے۔ اگر اس وقت ملک کی یہ تصویر بنی ہے کہ ....
خوف کے یوں بیج ہم بونے لگے
کوئی دستک دے تو گھر رونے لگے
تو بھائی صاحب! اصلاح احوال کی خاطر ملک کی یہ تصویر دکھانا کیا قوم میں مایوسیاں پھیلانا ہے۔ میرا تو درد ہی یہ ہے کہ ”میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند“ سب اچھا کی ہانک لگانے والے اور بہتیرے حکمرانوں کو دستیاب ہیں۔ ان کے دکھائے جعلی اور فرضی اچھے چہروں سے ہی اپنی غنودگی اور بالاخر اپنی موت کا اہتمام کرتے رہیں مگر اس سے حقائق پر مٹی پاﺅ والا فلسفہ کبھی کارگر نہیں ہو سکتا، پھر ”لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر، کیا کیجئے“۔ آپ کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں، کس کو خوش کر رہے ہیں اور بے تدبیری والے احتیاطی اقدامات سے پورے ملک کو خوف کی لپیٹ میں لا کر کس کا کام آسان بنا رہے ہیں۔ پھر ”ہم بولے گا تو بولو گے کہ بولتا ہے۔“ ابھی چودھری نثار بول رہے ہیں تو اس سے ہی اپنی بے تدبیریوں کا کچھ احساس کر لیجئے اور انہیں بھی یہ طعنہ مت دے ڈالئے کہ آپ قوم کو مایوسیوں کی تصویر کیوں دکھائے چلے جا رہے ہیں۔ بہتر ہے آپ خود ہی بے تدبیریوں کے اوڑھے ہوئے کمبل اتار پھینکیں اور سانپ کو مارنے یا اس کا زہر نکالنے کا گُر کسی مشّاق سپیرے سے سیکھ لیں۔ ایسے ہی لٹھ لے کر ہر ایک پر نہ چڑھ دوڑیں۔ ایسے ہی کسی کی چھینک پر سارے صوبے اور سارے ملک کے تعلیمی ادارے بند کرنے نہ نکل پڑیں۔ آپ ٹھنڈے موسم کو اس بے تدبیری کا جواز بنائیں گے تو اپنے لئے دشمن کے ٹھٹھے مخول کا خود ہی اہتمام کریں گے۔ ایسے نازک اور حساس معاملات پر فیصلے مونچھوں کے زور پر نہیں عقلِ سلیم کو بروئے کار لا کر اٹھائیں۔ اب یہ نہ پوچھ بیٹھئے کہ عقلِ سلیم کس چڑیا کا نام ہے اور کہاں سے ملتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن