”نیشنل ایکشن پلان“۔ معنی خیز رکاوٹوں کی زد میں

Jan 30, 2016

ناصر رضا کاظمی

پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے سال2016 شروع ہونے سے قبل جب یہ اہم بیان دیا کہ ’سال2016 دہشت گردی کے خاتمے کا سال ہوگا، تو پاکستانی قوم نے اپنے ہر دلعزیز اور قابل صد افتخار عسکری سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے اِس بیان پر نہ صرف بڑے اطمنان اور سکون کا سانس لیا بلکہ قومی شعبہ زندگی زندگی سے متعلق ہر ایک فرد نے اپنی اِس رائے کا برملا اظہارکیا کہ واقعی پاکستانی افواج نے قوم سے جو وعدہ کیا اُسے بروقت پورا بھی کردکھایا مگر ہمارے ازلی دشمنوں کی نیندیں اڑ گئیں اور ہمارے اُن دشمنوں نے ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر اپنی بزدلی کا وحشیانہ ثبوت دیا اور چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی میں اپنی دہشت گردانہ کاروائی کرکے پاکستانیوں کو اے پی ایس سانحہ کی یاد دلادی سال 2016 کا پہلا مہینہ جنوری بڑا خونریز مہینہ گزرا صوبہ ¾ ِ خبیر پختونخواہ میں لگاتار دہشت گردی کی کارروائیاں دیکھی گئیں اِس کا یہ مطلب نہیں کہ دہشت گردوں نے اپنی انسانیت سوز بربریت کی حیوانی کارروائیاں کرکے پاکستانی سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے اُس جراّت مندانہ بیان کو چیلنج کیا تھا نہیں بالکل نہیں اگر کوئی ایسا سوچتا اور سمجھتا ہے تو جان لیجئے ایسے لوگ یا ایسے گروہ سطحی فکرو نظر اور عامیانہ سی ذہنیت کے حامل ہوسکتے ہیں دانشورانہ بصیرت اور وسیع النظری سے بالکل نابلد پاکستانی آرمی چیف نے 2016 کو دہشت گردی کے خاتمے کا سال کہا تھا تو یقینا اُن کا یہ بھی خیال ہوگا کہ پاکستانی عسکری قیادت اپنے محاذ پر تفویض کردہ اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے تو دوسری جانب ملکی سیاسی قیادت پر بھی آئین ِ پاکستان کی اُتنی ہی اہم ذمہ داریاں ہیں جو اُنہیں ہرصورت اداکرنی ہونگی اور وہ بھی ضرور ادا کریں گے آپریشن ضرب ِ عضب ہو یا آپریشن راہ ِ راست ہو یا آپریشن راہ ِ نجات ہو دنیا کے ساتھ قوم نے خود دیکھ لیا کہ پاکستانی فو ج نے ہر کٹھن اور مشکلات سے بھرپور اپنا کام یعنی آئین کے سرکشوں سے جو نمٹنا ہوتا ہے اُن عملی امور سے پہلو تہی نہیں کی بلکہ اُسے زیادہ موثر انداز میں کردکھایا اِسی طرح سے دوسری جانب ملکی انتظامیہ کاکام افواج ِ پاکستان کی پشت پر رہ کر ملکی آئینی اتھارٹی کو تسلیم نہ کرنے والے دہشت گردوں سے کلیئر صاف کر ائے گئے علاقوں میں آکر از سر نو اپنے سیاسی وانتظامی انفراسٹریکچرکو بحال کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی وجمہوری قیادت کو سانپ کیوں سونگھ گیا؟ وہ قوم کونہ سوات میں نظر آتی ہے نہ سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کے دیگر علاقوں میں ایساکیوں ہے سوات میں آپریشن راہ راست ہوا جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ ِ نجات ہوا آج تک کئی برس گزر گئے فوج نے سوات سمیت فاٹا کے جہاں بھی دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں سے دہشتگردوں کا قلع قمع کیا گیااُنہیں قانون کے شکنجوں میں کسا گرفتار کیا یا وہ افواج ِ پاکستان کی موت کی وادیوں میں دھکیل دینے والی تباہ کن مار کے خوف سے بھاگ کر افغانستان کے سرحدی شہروں میں قائم بھارتی کونصل خانوں میں جاچھپے تو یہ مقام ’سول اتھارٹی ‘ کیلئے لمحہ ¾ ِ فکر ہے اب تک کیوں اُن علاقوں کا مقامی انتظام وانصرام وہ اپنے ہاتھوں میں لینے سے ہمیں قاصر اور مجبور دکھائی دیتی ہے ؟ جناب ِ والا! آج تک سوات میں فوجی یونٹس تعینات ہیں جگہ جگہ فوجی جوانوں کی چیک پوسٹیں قائم ہیں، آرمی پبلک اسکول پشاور میں افغانستان سے آئے دہشت گردوں نے جب معصوم طلباءوطالبات اور اسکول کے اسٹاف کے خون کی بہیمانہ ہولی کھیلی تو حکومت ِ وقت کے درودیوار ہلے ہر کوئی دنگ رہ گیا اِس موقع پر پاکستانی فوج، جس نے پہلے ہی شمالی وزیر ستان میں دہشت گردوں کی تفریق یکسر رد کرکے بلا استثناٰ اپنا آپریشن ِ ضرب ِ عضب شروع کیا ہوا تھا اے پی ایس سانحہ کے فوراً بعد جنرل راحیل شریف ایک نئے عزم وارادہ اور دوٹوک قطعی فیصلے کے پاکستانی جذبے سے سرشار ہو کر جب میدان ِ عمل میں اتر ئے تو اِس کڑے نازک موقع پر ہماری سیاسی قیادت کو بھی یہ ادراک ہوا کہ ملک سے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطروں کا مقابلہ کرنے کا اب یقیناً آخری وقت آن پہنچا ہے تو سب نے باہم متفق ہوکر پارلیمنٹ سے دہشت گردی کی تقریباً تمام جڑوں کو یکدم ختم کرنے کیلئے افواج ِ پاکستان اور سیکورٹی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بریفنگ کی روشنی میں نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی تھی ،یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات میں سے اب تک کتنے نکات پر کتنے فیصد عمل ہوا ہے؟ سول انتظامیہ نے چاہے وہ مرکزی حکومت ہو یا پھر صوبائی حکومتیں، اِنہوں نے ’نیشنل ایکشن پلان‘ کی منظوری کے بعد آج تک معنی خیز شکوک شبہات کی اپنی خاموشی کی مہر کیوں لگا رکھی ہے آپریشن ضرب عضب جون2014 میں لانچ ہوا جبکہ اِسی نوعیت کا دہشت گردوں‘ بھتہ خوروں‘ ٹارگٹ کلرز اور اغوا کاروں کے خلاف کراچی میں ستمبر 2013 میں سیکورٹی فورسنز کی نگرانی میں آپریشن شروع ہوا تھا وہ بھی جاری تھا کہ اے پی ایس پشاور کے اندوہناک سانحہ کے بعد بیس نکات پر مشتمل وزیر اعظم پاکستان نے قوم سے اپنے خطاب میں نیشنل ایکشن پلان کی نوید سنائی تھی مگر یہ کیا اور کیسا ’انڈر ہینڈ خطرناک کھیل‘ ملک میں جاری ہے سیاسی قائدین چاہے وہ کسی صوبے کے ہوں یا مرکز کے کل بھی ہمیں دہشتگردی سے نمٹنے کے حساس معاملے میں قوم کو نرے کنفیوژڈ نظر آئے سست روی کے شکار بالغ النظری کے فیصلے کرنے سے بالکل عاری اور کورے یہ سیاسی قائدین آخر کیوں عوام کی جان ومال اور اُن کے تحفظ سے اپنی جانیں چھڑا نے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں؟ کیا یہ ہی ہے اُن کی سیاست؟ ہمہ وقت کنفیوژڈ‘ اپنے اقتدار کے جانے کے خطروں سے خوف زدہ‘ متانت اور پُروقار انداز ِحکمرانی سے لاتعلق‘ سیاست کو انسانی فلاح وبہبود کی عبادت سمجھنے کی بجائے انسانیت کے دشمنوں کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال کر دوٹوک فیصلے کرنے کی جتنی آج پاکستان کو ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی عوام کو ہم اور کچھ نہیں دے سکتے لیکن اُنہیں اُنکی زندگیوں کا اطمنان اور تحفظ تو یقینا دے سکتے ہیں سوچیں اور غور فرمائیںکہ نافذ ِالعمل ہونے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے90% حصہ پر اب تک عمل کیوں نہیں ہوسکا؟

مزیدخبریں