چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے عدلیہ کسی دباﺅ کے بغیر فیصلے کرنے کی پابند ہے۔ بنیادی حقوق پر عملدرآمد کرانا عدلیہ کا فرض ہے۔ وہ کراچی کے مقامی ہوٹل میں سارک لاءتنظیم کی 25 ویں سالگرہ (سلور جوبلی تقریب) سے خطاب کررہے تھے۔ تقریب میں جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم (سابق چیف جسٹس پاکستان) کی یاد میں لیکچرز کا انعقاد بھی عمل میں لایا گیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا، جسٹس نسیم حسن شاہ کا قانون کی بالادستی کیلئے نمایاں کردار ہے۔ انہوں نے کئی اہم فیصلے کئے جو رہنمائی کرتے رہیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا آئین نے عدلیہ کو اختیار دیا ہے انتظامیہ کو اختیارات کے تجاوز سے روکے۔ انہوں نے کہا ہماری بنیادی ذمہ داری جلد اور تیز رفتار انصاف کی فراہمی ہے۔ مقدمات کے غیر ضروری التوا سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے جبکہ انصاف ہوتا بھی نظر آناچاہئے۔ تقریب میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف کھوسہ‘ سری لنکا کے چیف جسٹس کے سری پون‘ بھارت نیپال سمیت دیگر سارک ملکوں کی سپریم کورٹ کے سینئر وکلائ‘ سارک ممالک کے قونصل جنرل اور سفارتی عملے نے بھی شرکت کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاںثاقب نثار نے کہا ہے ہر سائل کا حق ہے اسے انصاف ملے، حال ہی میں سپریم کورٹ نے معصوم طیبہ پر تشدد کا نوٹس لیا جس پر ہونے والی ناانصافی کو میڈیا نے نمایاں کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا میڈیانے معاشرے میںہونے والی ناانصافیوںکو بہتر انداز میں نمایا ں کیا ہے جس کی وجہ سے عدالت نے کئی مقدمات میں ازخود نوٹس لیا۔
جدید دور میں میڈیا کی اہمیت اور افادیت دو چند ہوئی ہے، گو سوشل میڈیا کی کچھ قباحتیں سامنے آئی ہیں تاہم یہ میڈیا بھی کئی معاملات میں روایتی میڈیا کا معاون ثابت ہوا ہے۔ معاشرے میں انصاف کی فراہمی کیلئے میڈیا عدالتی معاون کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔عدلیہ نے کئی سوموٹو میڈیا کی رپورٹس پر لئے ہیں۔ مشرف دور میں سٹیل ملز کوڑیوں کے بھاﺅ فروخت کی جا رہی تھی، جس پر سپریم کورٹ نے سوموٹو لیتے ہوئے حکومت کو فروخت سے منع کر دیا، اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری تھے۔ ان کے خلاف صدر جنرل پرویز مشرف کے ایکشن کی وجہ حکومت کو سٹیل مل کی نجکاری سے روکنا بھی تھا۔جسٹس افتخار چودھری کی عمومی شہرت دباﺅ قبول نہ کرنےوالے جج کی ہے جس کیلئے انہیں اور ساتھی ججوں کو قید اور نظربندی جیسی سخت آزمائش اور صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔
پاکستان کی عدلیہ میں بے لاگ اور جرا¿ت سے فیصلے کرنے والے ججز ہر دور میں رہے تاہم دباﺅ قبول نہ کرنے کے حوالے سے عدلیہ کی تاریخ درخشاں و تابناک نہیں ہے۔ جسٹس منیر کی مولوی تمیزالدین کیس میں نظریہ ضرورت کی ایجاد بعد میں مارشل لاﺅں کو تحفظ دینے کا باعث بنی۔ جسٹس انوارالحق بھٹو کیس میں دباﺅ اور مصلحتوں کا شکار ہوئے جس کا اعتراف مرحوم مسٹر جسٹس نسیم حسن شاہ نے ان الفاظ میں کیا۔ ”ہم پر بھٹو کیس میں دباﺅ تھا“۔ شاید ایسے اعتراضات کی بناءپر بھٹو کی پھانسی کو جوڈیشل مرڈر کہا جاتا ہے۔ اس کیس میں جسٹس صفدر شاہ دباﺅ کو خاطر میں نہیں لائے تھے، انہوں نے اختلافی نوٹ لکھا جس کی پاداش میں ان کے خلاف مارشلائی حکومت ایکشن میں آئی تو انہیں ملک سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ یہ بھی ہماری عدلیہ میں ہوا کہ حکمرانوں کے فون اور چٹوں پر فیصلے کئے جاتے رہے۔
عدلیہ کے پاس آئین اور قانون کی تفویض کردہ بہت بڑی پاور ہے، یہ بلا امتیاز انصاف کی فراہمی اور عملداری کیلئے استعمال ہو تو وطن عزیز ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کرتا چلا جائے۔ دہشتگردی کے بعد ملک کا سب سے بڑا ناسور کرپشن ہے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کے غیر ملکی بنکوں میں 2 سو ارب ڈالر ناجائز ذرائع سے کما کر جمع کرائے گئے ہیں۔ نیب کے سابق چیئرمین فصیح بخاری اور سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنے اپنے دور میں باور کرایا کہ ملک میں روزانہ دس سے 14 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔پانامہ اور بہاماز لیکس بھی کھربوں ڈالر کی کرپشن کے شاہکار ہیں۔ نیب نے تین کھرب روپے کے قریب رقوم پلی بارگین کے ذریعے ریکور کرائی ہیں۔ جن لوگوں سے یہ ریکوری ہوئی، ان سے لوٹ مار کی پائی پائی وصول کی جاتی تو یہ رقوم دس گنا زیادہ ہو سکتی تھیں۔ 150 میگا کرپشن کیسز کی رپورٹ نیب نے سپریم کورٹ میں پیش کی تھی۔ اس کے بعد چیئرمین نیب کو دھمکیاں دی گئی جن پر شاید وہ مرعوب ہو گئے۔ سپریم کورٹ سے عوام کی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ 150 میگا کرپشن کیسز کے حوالے سے معاملے کو بلاتاخیر منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ پاکستان کے انصاف کے سب سے بڑے فورم سے قوم کو اور بھی بہت سے امیدیں ہیں۔
ہر چیف جسٹس نے دباﺅ میں آئے بغیر بلا امتیاز اور بلاتاخیر فیصلے کرنے کی اپنے اپنے دور میں یقین دہانی کرائی۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار بھی متعدد بار ایسا کہہ چکے ہیں۔ ان کے پاس اپنے اقوال پر عمل کرنے کیلئے مناسب وقت ہے۔ بلاامتیاز فیصلے کرنا تو عدلیہ کی اوّل و آخر ذمہ داری ہے بلاتاخیر فیصلوں میں لوئر سے ہائرکورٹس تک فعالیت نظر آنی چاہئیے۔ اصغر خان کیس نوے سے التواءمیں ہے۔ ایسے کتنے ہی کیس ہونگے۔ ٹربیونلز کے فیصلوں میں نا اہل ہونے والے پانچ سال سٹے آرڈر پر گزار دیتے ہیں۔ تاریخ پر تاریخ دے کر اور لے کر دہائیوں تک مقدمات چلتے ہیں۔ اس کا ذکر فاضل چیف جسٹس سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ نے ایک ہی روز مختلف مواقع پر اپنے خطابات میں کیا ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ پنجاب کی عدلیہ میں اس وقت لاکھوں مقدمات زیرالتوا ہیں جنہیں روائتی انداز میں نمٹانا ممکن نہیں ہے۔ ہمیں دنیا میں رائج جدیدطریقے اپنانا ہوں گے تاکہ عوام کا عدالتوں پر اعتماد بحال ہوسکے۔ مسئلے بند کمروں میں بھی حل ہو سکتے ہیں، عدالتوں میں مقدمات کی پیرو ی کرتے کرتے لوگ تنگ آچکے ہیں، حکم امتناعی کے کلچر کو بھول جائیں۔ پوری دنیا میں 30 سے 40 فیصد مقدمات مصالحتی مراکز کو بھیجے جاتے ہیں۔ ہمیں سٹے کلچر سے نکل کر نئی سوچ اپنانا ہوگی۔ چیف جسٹس نے ان خیالات کا اظہار لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز میں میڈی ایشن سنٹر (مصالحتی مرکز) کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کیا۔
مصالحتی سسٹم کی حوصلہ افزائی کی ہر دور میںضرورت رہی ہے۔ لوگ اپنی سطح پر معاملات طے کریں تو عدلیہ کا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود عدالتی سسٹم میں بہتری اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لوئر کورٹس میں کرپشن ایک ناسور کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جس سے یقیناً اعلیٰ کورٹس بھی پوری طرح مبرا نہیں ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ اور صوبائی کورٹس کے سربراہان عدالتی سسٹم میں اصلاح کیلئے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
گزشتہ دور میں ایک وزیراعظم کو توہین عدالت پر گھر بھجوا دیا گیا تھا، ایک وفاقی وزیر کرپشن کیس میں آج بھی جیل میں ہے۔ کرپشن کی ایسی کئی کہانیاں آج بھی میڈیا کے توسط سے مرکزی اور صوبائی سطح پر سامنے آتی رہتی ہیں مگر حکومتیں نوٹس نہیں لیتیں، شاید انہی کی اشیرباد سے کرپشن کی داستانیں رقم ہوتی ہیں۔ ایسے میں کچھ لوگ فوج کی طرف دیکھتے ہیں جس کی کسی طور حمایت نہیں ہو سکتی تاہم عدلیہ کو ضرورت اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے۔ معروضی حالات میں ملک کو کرپشن کے گرداب سے عدلیہ نکال سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے اپنے خطاب میں بنیادی حقوق پر عمل درآمد کرانے کو عدلیہ کا فرض قرار دیا۔ انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان پر عالمی تنظیموں کی طرف سے تنقید ہوتی ہے۔ اس حوالے سے آج کے انسداد دہشتگردی کی عدالت کے فیصلے سے پاکستان عالمی میڈیا میں پھر موضوع بنتا نظر آتا ہے۔انسداد دہشتگردی لاہور کی خصوصی عدالت نے مسیحی بستی جلانے اور سانحہ جوزف کالونی کے 115 ملزموںکو ناکافی ثبوتوں کی بناءپر بری کر دیا۔مارچ 2013ءمیں مسیحی بستی کو جلا ڈالا گیا دو سو کے قریب گھروں کے مکینوں کو دربدر ہونا پڑا۔ ایک وقوعہ پوری دنیا کے میڈیا پر چھایا رہا دو سال بعد ملزم رہا کر دیئے گئے۔ کیا بھیانک وقوعہ سے انکار ممکن ہے؟ اگر ان 115 میں سے کوئی مجرم نہیں تو پھر جو تھا اس اس کو سامنے لایا جانا چاہئےے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نوٹس لیں، پوچھیں کہ کہاں معاملہ خراب ہوا، کون ذمہ دار ہے، پولیس، پراسیکوشن یایا کورٹ؟ انسداد دہشتگردی کی عدالت ایک ٹائم فریم میں فیصلہ دینے کی پابند ہے مگر ان عدالتوں میں بھی کیس طویل مدت تک چلتے ہیں۔
آج فوجی عدالتوں میں توسیع زیر بحث ہے۔ جمہوری حکومت میں فوجی عدالتوں کا قیام عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار ہے، گو حالات مخدوش تھے، سپریم کورٹ نے حکومتی منشاءپر ان کے قیام کی اجازت دیدی، اُس وقت سپریم کورٹ حکومت کو اس طرح کا انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتی جیسا فوجی عدالتوں سے متوقع تھا تو بہتر ہوتا۔ آخر پانچ سو دہشتگردوں کی سزاکے احکانات اسی عدلیہ کے معزز محترم اور جرا¿ت مند ججوں نے سنائے تھے۔ ہمارے عدالتی سسٹم میں بلا امتیاز، دباﺅ سے بالاتر ہو کر، بلاتاخیر اور جرا¿ت کے ساتھ فیصلے کرنے کی یقیناً صلاحیت ہے، ضرورت صرف ایسی صلاحیتوں کو برﺅے کار لانے کی ہے جو پاکستان کے منصف اعلیٰ لا سکتے ہیں۔