ایک نجی ٹی وی چینل پر پروگرام "اب ایسا نہیں چلے گا " کہ پیش کار ڈاکٹر صاحب کے پروگرام اور چینل پر پیمرا کی طرف سے پابند ی لگائی گئی تھی ۔ جو فی الحال سندھ ہائی کورٹ نے یکم فروری تک معطل کر دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت کون ہے؟ کیا واقعی ہی وہ مذہبی سکالر ہے ۔ یا اس کے پاس کچھ دینی علم ہے بھی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کبھی نعت خوان تھے لیکن ان میں اداکاری کرنے کے تمام جراثیم موجود تھے پھر ایک دور ایسا بھی تھا کہ اس نے بانی ایم کیو ایم کی خوبیوں کو آسماں تک پہنچانے کے لیے تبلیغ شروع کر دی ۔ پھر اس دور میں بانی ایم کیو ایم جس فرد کو ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی بنا نا چاہتا تھا تو صرف نام سامنے لانے کی ضرورت ہوتی تھی ۔ ووٹنگ کے دن پولنگ اسٹیشن پر کوئی ووٹر آئے نہ آئے اس کا ووٹ بیلٹ باکس میں پہنچ چکا ہوتا تھا یا پہنچایا جا چکا ہو تا تھا ۔ کیونکہ اس دو ر میں الیکشن نہیں صرف بانی ایم کیو ایم کی طرف سے سلیکشن ہوا کرتی تھی۔ کسی کو بھی اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ مخالفت میں کوئی لفظ منہ سے نکالے یوں ڈاکٹر عامر کی بھی لاٹری نکلی ، حکم ہوا ، کہ قومی اسمبلی کا ایک ٹکٹ اس کے نام بس نام ہی کافی تھا۔ پولنگ کے دن شام کو ڈاکٹر عامر لیاقت بھاری اکثریت سے کامیاب قرار پائے۔ یہ اداکار ممبر قومی اسمبلی بن کر اسمبلی ہال میں پہنچ گیا پھر ہر جگہ اس نے اپنے آپ کو منوانے کے لیے ٹانگیں پھیلانا شروع کی تو بانی ایم کیو ایم کو برداشت نہ ہوا اور اس استعفیٰ لے لیا گیا۔ پھر نجی ٹی وی چینل کو اپنے مذہبی پروگرام کے لیے اسی طرح کا اداکار درکار تھا ۔ اس نے مذہب کے نام پر اداکاری شروع کر دی اور نجی ٹی وی چینل کے اخبار میں مالکان چینل نے اپنی ضروت کے تحت اس پروگرام کی تعر یفوں کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملائے ۔ اسی ضروت کے تحت وہ عمرے پر لے جا یا گیا ۔ وہاں جنگ احد کے کے اس پہاڑ پر جو فلم بندی ہوئی اس میں یہ فلمی ہیروئن کی طرح بار بار اس کے کپڑے تبدیل کرنے کا سین سامنے آتا ہے۔ اگر یہ کوئی واقع ہی مذہبی سکالر ہوتا تو اس طرح کی اداکاری نہ کرتا ۔ لیکن یہ تو ہے ہی اداکار اس نے تو اداکاری کرنی ہی تھی اور کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد اس نے اپنے اس پہلے چینل کو داغ مفارقت دے دی جس چینل نے اسے دنیا بھر میں مذہبی سکالر کے طور پر مشہور کیا تھا ۔ ایک اور چینل میں جا گھسا ۔ وہاں اس کی اداکاری اس کے کام نہ آئی اور دوبارہ اسی چینل میں آ پہنچا جہاں سے بھاگاتھا ۔ اب جبکہ پابندی کے شکار ٹی وی چینل نے کئی طرح کی مصیبتوں کے بعد اپنی نشریات دوبارہ شروع کیں تو یہ نام نہاد مذہبی سکالر وہاں حاضر ہو گیا۔ اسے میدان کھلا ملا تو اس نے اپنے پرائے سب کے لتے لینے شروع کر دیے۔ سب سے پہلے اسی چینل کی جڑیں کاٹنے شروع کی جس نے اسے دنیا بھر میں روشناس کرا یا تھا۔ اور پھر کچھ صحافیوں کو اپنے پروگرام " اب ایسا نہیں چلے گا" کا نشانہ بنا نا شروع کر دیا ۔ اب سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت نے خود کو تہذیب کی حدود سے کیوں کر باہر نکالا ہے۔کیا وہ جو کچھ کہتا رہا ہے وہ سب غلط تھا یا اس کے کہنے کا طریقہ غلط تھا ۔ یہ تو کسی کا دعویٰ نہیں ہے کہ ہمارا میڈیا یا صحافت غیر جانبداری پر عمل پیرا ہیں۔ بلکہ بہت سے صحافیوں نے صحافت کو تجارت کو بنا یا ہوا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں صحافی جس اخبار میں کام کرتے ہیں۔ اسی اخبار کے ذریعے اپنے لیے الفاظ کی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ تحریریں خود بتا دیتی ہیں کہ صحافی کا رخ کس کی طرف ہے۔ حکومت وقت کوئی بھی ہو قلم کاروں کی کھیپ قصیدہ گوئی کے لیے تیار رہتی ہے۔ اور انعام و کرام سے نوازا جاتا ہے۔ اور اس بات میں بھی کو ئی دروغ نہیں کہ کچھ ٹی وی چینلز بھی یکطرفہ ٹریفک چلائے ہوئے ہیں۔ ٹاک شوز میں اپنی پسند کے مہمان بلائے جاتے ہیں اور مخالفین کو بدنام کرنے کے لیے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔کہنا یہ ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت کو اس طرح کی اداکاری نہیں کرنی چاہیے تھی ۔ اگر سکرپٹ کے مطابق انھیں اداکاری کرنے کو کہا گیا تو انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ انھیں مہذب طریقہ اور جائز تنقید کر کے پروگرام کو جاری رکھنا تھا۔ لیکن جس طرح ڈاکٹر صاحب نے اپنے پروگرام اب ایسا نہیں چلے گا کو چلایا ہے تو یہ بات بھی یقینی ہے ان کی مرضی کے مطابق ایسا نہیں چلے گا۔ وہ بھانڈوں والا کردار ادا نہ کریں اگر ایسا کرنا ہی ہے تو اپنے نام کے ساتھ عامر لیاقت کہمار لکھا کریں۔ کیونکہ اس قسم کی اداکاری کرنے والوں کے نا م کے ساتھ لفظ کمار لکھا جا تا رہا ہے۔ مثلاً دلیپ کمار، سنتوش کمار ، رتن کمار وغیرہ ۔ امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے پروگرام ایسا نہیں چلے گا کو جاری رکھتے ہوئے تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے ۔