اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کا واحد ملک جو خالصتاً نظریہ¿ اسلام اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔ اسکا آئین بھی اسلامی تہذیب و تمدن اور مشرقی روایات کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا تاکہ دنیا کو ہم اپنے قول و فعل سے باور کرا سکیں کہ ہم نے اپنا الگ وطن حاصل کر کے کوئی غلطی نہیں کی اور اب یہ پاکستان ایک ایٹمی قوت کے طور پر ایک عالم میں جانا پہچانا جاتا ہے۔ افواج پاکستان اپنی صلاحیتوں اور جدید ہتھیاروں اور دور تک مار کرنے والے میزائلوں کے ساتھ ہمارا اور عالم اسلام کا فخر و ناز ہے۔
ہمارا مدمقابل نہیں ہے دور تلک
فلک بھی خطہ¿ ارضی پر رشک کرتا ہے
لیکن ہماری جغرافیائی حدود مضبوط دیکھ کر غیر مسلم اور پاکستان کی ازل سے دشمن قوتوں نے ہمارے اخلاقی محاذ پر ضرب کاری لگانے‘ ہماری حمیت و جرا¿ت‘ اسلامی تہذیب و تمدن اور روایات دیرینہ کو ناپید کرنے کیلئے ”میڈیا وار“ کا ایسا ”لامتناہی“ آغاز کیا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور روز بروز ”سود در سود“ کی طرح ہمارے اذہان و قلوب اور نسل نو کے معمولات میں سرایت کرتا جا رہا ہے۔ ان ملک دشمن قوتوں کے پیش نظر یہ بات بھی ہمیشہ سے رہی کہ اسلامی تہذیب و تمدن جب تک مسلمان قوم کا اثاثہ رہے گا ان پر حکم چلانا ناممکن ہو گا۔ سو مغربی کلچر کو اسلامی کلچر میں مدغم کر کے ”جدید روشن خیال اسلام“ کے نام پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے وہ ناقابل تلافی نقصان پہنچایاا کہ جسکا ازالہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ گویا زہر کو قند میں ملا کر ہمیں اسقدر عادی بنا دیا گیا کہ ہم اصل کو بھول بیٹھے
اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش
میں زہر بلابل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
بے راہ روی کا الزام کسی خاص طبقے پر نہیں لگایا جا سکتا تاہم اسکے محرکات کا پتہ لگانا اور دورکرنا ازحد ضروری ہے۔ معاشرے کے دانشور‘ علماءاساتذہ اور مذہبی رہنما¶ں کا یہ فرض بنتا ہے کہ سچ اور جھوٹ‘ اچھائی اور برائی‘ حق و باطل کے درمیان امتیاز کر کے سامنے رکھ دیں۔ تہذیبی ارتقا کی بات ایسی ہی ہے ”جیسا دودھ ہو گا ویسا ہی مکھن نکلے گا“ دودھ اگر خالص ہے تو مکھن بھی خالص اور دودھ اگر زہریلے اثرات کا حامل ہے تو مکھن بھی جراثیم زدہ ہو گا۔
مسلمان دشمن قوتوں نے جب دیکھا کہ غیرت مند مسلمان موت سے نہیں ڈرتا اور شہادت کو اپنی معراج سمجھتا ہے تو اس نے جسمانی زور آزمائی کی بجائے مسلمانوں کی نفسیاتی‘ نظریاتی اور اخلاقی سرحدوں پرحملہ کر دیا۔ ٹی وی انٹینا سے آغاز ہوا پھر ویڈیو کیسٹوں کا سیلاب‘ کیبل نیٹ ورک تو اپنی ”حدود“ میں رہتے ہوئے ”لامحدود“ چینلز کے ذریعے ہر فرد کو ”فکری سہولت“ اسکے بیڈ روم تک مہیا کر کے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ انٹرنیٹ کلبز میں جو کچھ ہوتا رہا اور ”ہو رہا ہے“ وہ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ رہی سہی کسر موبائل اور فیس بک کے باہمی اختلاط نے پوری کر دی اور اب ہر ہاتھ میں یہ ”بیماری“ جسکا علاج ابھی دریافت نہیں ہوا شوگر کے مرض کی طرح روز بروز بڑھتا جا رہا ہے
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
نسل نو‘ سکول و کالجز کے طلبہ و طالبات جس طرح بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہو رہے ہیں تکلیف دہ ہے۔ دیگر غیر ملکی چینلز تو اپنی جگہ خصوصاً بھارتی ڈرامے‘ فلمیں اور کارٹون نیٹ ورک پر چلنے والے اردو ڈبنگ کے ساتھ ”نت نئی کارٹون سیریل“ بچوں کے اذہان و قلوب کو جس طرح متاثر کر ہے ہیں وہ ہر گھر میں موجود ”ماں باپ“ خوب جان رہے ہیں۔ یہ ”کمپیوٹر دور“ کے بچے ایک خاص محور کے گرد گھوم رہے ہیں اور محافل میں کبھی کبھی ”دادی کی چتا کو آگ لگانے“ اور ”آگ کے گرد پھیرے لگا کر شادی“ کی رسومات کے ساتھ تلک لگانے کو بھی اپنی تہذیب کا حصہ جان کر پروان چڑھ رہے ہیں۔ جو ہم بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ کیکر بو کر آم کا حصول اور گلاب کے پھولوں کی امید رکھنا عبث ہے۔
کیا اس سنجیدہ معاملے کو ”جیسا ہے جہاں“ ہے کی بنیاد پر چھوڑ دیا جائے یا نسل نو یا اپنے اثاثے یعنی پاکستان کے مستقبل کے معماروں کو کچھ ایسا شعور و ضابطہ دینے کے لئے والدین‘ اساتذہ‘ دانشور‘ قلمکار‘ علماءو فضلا‘ غرص ہر محب وطن پاکستانی اور مسلمان اپنا اپنا کردار اپنے دائرہ عمل میں آج ہی سے شروع کر کے صدقہ جاریہ کی شروعات کریں تاکہ بروز حشر سرخرو ٹھہریں۔
٪٪٪٪٪٪٪٪