مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیاءکا دہکتا ہوا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے خطے میں بد امنی کی فضاءپھیلی ہوئی ہے۔ 69سال سے جاری اس مسئلے کے حل کیلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ صرف مذاکرات کے مختلف ادوار ہوئے بلکہ بات جنگوں تک آ گئی اور پھر بھی یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ بھارتی جارحیت اور عسکریت پسندی بڑھتی جا رہی ہے۔ بھارتی فوج کے مظالم سے چھ لاکھ سے زائد افراد شہادت کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ شاید ہی وادی کشمیر میں کوئی ایسا گھر ہو جس نے کسی شہید کو جنم نہ دیا ہو یا کوئی گلی کوچہ موجود ہو جہاں اہلِ کشمیر کی مظلومیت اور بھارتی فوج کی وحشیانہ کارروائیوں کی داستان رقم نہ ہوئی ہو۔
کشمیری نوجوان برہان وانی کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر کو نیا ولولہ بخشا اور کشمیری عوام نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیئے جس پر ہندوستان کی فوج اور پیرا ملٹری فورسز اپنی روایتی بربریت کو برقرار رکھتے ہوئے ان احتجاجی مظاہروں کو ختم کرنے کیلئے میدان میں اتری۔ شاید انہیں معلوم نہیں کہ کشمیریوں کا احتجاج درحقیقت ان کے دل کی آواز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی فوج اپنی تمام تر طاقت اور اثر و رسوخ کے تحریک آزادی کو نہ دبا سکی۔ بھارت میں موجود تعصب اور ناجائز حکمرانی کی وجہ سے کشمیری نوجوان نسل میں بھارت کے لےے نفرت کا تن آور درخت پروان چڑھ چکا ہے اور باوجود اس کے کہ کشمیریوں کی تیسری نسل نے پاکستان کو نہیں دیکھا مگر وہ پاکستان کیلئے ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں جیسی ان کی پہلی نسل رکھتی تھی اور آج بھی احتجاجی مظاہروں کے دوران کشمیری اپنے گھروں پر پاکستانی پرچم لہراتے ہیں۔
کشمیر کی موجودہ صورتحال نہ صرف کشمیریوںبلکہ پاکستانیوں کیلئے پریشان کن ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ سطحی سیاسی و فوجی قیادت اور وزارت خارجہ نے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی فوج کی پر تشدد کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مسئلے کے حل میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے عین مطابق حل کرانے پر زور دیا اور پاکستانی حکومت اور عوام کی طرف سے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی مکمل حمایت کے عزم کو دہرایا۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری کا یونین اور اسلامی کانفرنس تنظیم کے رکن ممالک کے سفیروں کو بریفنگ دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں معصوم کشمیریوں کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ قابلِ تحسین ہے۔
مسئلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں سر فہرست ہے۔ پاکستانی قیادت مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھاتی رہی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے ستمبر 2015کے جنرل اسمبلی کے خطاب میں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا اور ان کو باور کروایا کہ جنوبی ایشیا کا امن مسئلہ کشمیر کے حل سے ہی منسلک ہے۔ اکتوبر 2015ءمیں وزیراعظم نواز شریف نے دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر براک اوبامہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کو کہا۔ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے بعد دنیا کی سپر پاور بھی اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات پر زور دے رہی ہے اور اسے جنوبی ایشیا کے امن کیلئے خطرہ محسوس کرتی ہے۔
برہان وانی کی شہادت بہت اندوہناک ہے لیکن پاکستان کی قیادت کے پاس ایک موقع ہے کہ اس شہادت سے کشمیری عوام میں جو جذبہ بیدار ہوا ہے اسے اقوام متحدہ، اسلامی کانفرنس تنظیم، یورپی یونین، اسیان سمیت ہر اہم عالمی و علاقائی تنظیم کے پلیٹ فارم پر موثر انداز میں پیش کرے۔ امریکہ سمیت عالمی قوتوں کے سامنے مسئلہ کشمیر کی حساسیت و اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر مہذب دنیا پہلے ہی انڈیا کے بہت خلاف ہے۔ پاکستان کی موثر سفارت کاری کی بدولت انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھارت کی مخالفت میں یقینا پاکستان کے خلاف کھڑے ہوسکتے ہیں۔
مسئلہ کشمیرپر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت ایک ہی صفحے پر موجود ہیں۔ موجودہ صورتحال میں وزیراعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، دفتر خارجہ اور اقوام متحدہ میں پاکستانی مشن کا رد عمل کافی حوصلہ افزا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی تازہ لہر کے خلاف پاکستان کا سلامتی کونسل کے مستقل ارکان سے رابطہ اچھی پیش رفت ہے۔ ان ممالک کی حمایت اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قرار دادوں پر عملدرآمد کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنوبی ایشیاءمیں پائیدار امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دور کرنے میں اپنا حصہ ادا کریں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ کشمیر تقسیم ہند کا نا مکمل ایجنڈا ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم کی وفاقی کابینہ کے زیر صدارت اجلاس میں وزیراعظم نے تقسیم ہند کے نا مکمل ایجنڈے کا ذکر کیا اور مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکامی کو اقوامِ متحدہ کی ناکامی قرار دیا اور اس ضرورت پر زور دیا کہ اقوام متحدہ اپنی قرار دادوں پر عمل کیلئے سنجیدہ کوششیں کرے اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو یقینی بنائے۔ وفاقی کابینہ نے 19جولائی کو کشمیریوں کے ساتھ یوم الحاق اور 20جولائی کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت وزیراعظم کی قیادت میں کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی، سیاسی امداد جاری رکھے گی اور کسی صورت اسے اکیلا نہیں چھوڑے گی۔حریت رہنما سید علی گیلانی نے کشمیر میں قیام امن سے متعلق چار نکاتی امن فارمولا پیش کیا ہے۔ علی گیلانی نے عالمی اداروں اور سر براہان مملکت کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں خطے میں پائیدار امن کی ضمانت کیلئے چار نکات پر مشتمل مطالبات کی فہرست جاری کی ہے۔ امن فارمولے کے نکات میں مطالبہ کیا ہے کہ جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور اس کے باشندوں کا حق خود ارادیت تسلیم کیا جائے، آبادی والے علاقوں سے فوجی انخلائ، فوجی قوانین کا خاتمہ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی اور اقوام متحدہ کے خصوصی مبصرین کو وادی کشمیر میں آنے کی اجازت دی جائے۔بھارتی قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دیئے بغیر ان کی جان نہیں چھوٹے گی۔ علاقائی سلامتی کیلئے ناگزیر اس مسئلے کے حل میں تاخیر خود بھارت کی سلامتی و استحکام کیلئے خطرہ بن جائے گی۔ بھارت کے حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر کے حل میں سنجیدگی سے کام نہ لیا تو مذہبی انتہا پسندی، طبقاتی کشمکش، فرقہ وارانہ کشیدگی اور علاقائی محرومی کی بنیاد پر جاری علیحدگی پسند کی تحریکیں بھارت کی سا لمیت کیلئے خطرہ ثابت ہونگی۔ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنے کی صورت میں علاقائی اور عالمی امن کو لاحق خطرات میں کمی واقع ہو گی۔