”امریکی گوربا چوف“
متنبہ کیا اور بہت کھلے الفاظ میں کہ ”ہٹلر“ کو جرمنوں نے چُنا اُس نے ملک برباد کر دیا۔ دیکھئے ”ٹرمپ“ کیا کرتے ہیں۔ ”پوپ فرانسس“ نے سرحدوں پر تاریں لگانے اور دیوار تعمیر کرنے کی بھی مذمت کی۔ مگر اپنی ڈھب کا انوکھا آدمی۔ انتخابی وعدوں کو کاغذوں سے نکال کر دستخط کرنا شروع کئے۔ ایک نہیں۔ دو نہیں۔ اُوپر تلے متعدد ہنگامہ برپا کرنے والے اقدامات اُٹھا کر چاروں اور تنازعات کی سُلگتی آگ کو مزید فیول دے ڈالا۔ بیک وقت ”80 سفیر“ فارغ۔ ”12 ملکی“ تجارتی معاہدہ ختم۔ گو یہ فیصلہ امریکی ملازمین کے لئے بہترین اقدام کے نام پر کیا گیا مگر آجکل کی سرحدوں کو مٹاتی، تاروں کے ساتھ منسلک دنیا میں اکیلا پرواز کرنے، رہنے کا تصور احمقانہ باتوں کی طرح برے نتائج کا حامل احمق دستخط ثابت ہو گا۔ اب دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں کہ ”ٹرمپ“ کیا کرتے ہیں۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اگرچہ اُن اقدامات کی منظوری ”کانگریس“ دے گی مگر جب ”بڑا“ ٹھان لے تو منظوری، قانون کے طویل چکر، سب کاغذی باتیں رہ جاتی ہیں۔ شاید امریکی عروج، ترقی کو اپنے ہاتھوں کفن دیئے جانا مقصود ہے۔ ”پاگل کچھ بھی کر سکتا ہے“۔
میں تشدد پر یقین رکھتا ہوں کیونکہ آگ کا مقابلہ آگ سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ تشدد کرنا کارآمد ہے۔
ہم اپنے ”آقا عربی“ کے کس قدر وفادار، اطاعت گزار غلام ہیں۔ اُدھر تشدد والی تقریر کے نکات عام ہوئے۔ اِدھر ہم نے ”اسمبلی“ میں برسرعام تقریر پر ڈرامہ ........ اظہار ہوا۔ ہم نے فوراً سے پہلے تصدیق دستخط کر دیئے۔ لاتیں، گھونسے، دھکے، گالیاں بے شمار عنوانات سے بھرپور شو۔ حلف اُٹھانے کے بعد کا ہر لمحہ ”آسمانی بجلی“ کی طرح ”مسلمانوں“ پر گر رہا ہے۔ ہمارے ہمسائے کا صرف فون نہیں کھڑکا بلکہ دورے کی دعوت بھی تاروں کے ذریعے پہنچا دی جبکہ ہمارے اِدھر بدلتی دنیا اور ہمارے لئے تلخی گھولتے واقعات کا کسی کو ادراک ہے نہ تشویش۔ اِک ”ٹرمپ“ امریکہ پر بھاری پڑے گا مگر اُس وقت سے پہلے وہ جو کچھ کر جائے گا اُس کا اندازہ ”دستخطوں“ سے لگالیں۔ ”7 مسلم ممالک“ کے بعد اب پاکستان، افغانستان اور سعودی عرب کے باشندوں پر پہلے سے زیادہ سختی کا حکم نامہ جاری ہو چکا ہے۔ ”بدنام جیل“ کھلی رکھنے کے علاوہ بیرونِ ممالک خفیہ ایجنسی کے حراستی مراکز قائم کرنے پر دنیا ششدر، سراسیمہ ہے۔ ”نائن الیون“ کے بعد اپنے ملکوں میں امریکی جیلیں قائم کرنے کی اجازت دینے والے ممالک نے جیلوں کی بحالی کی گنجائش نہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ عالمی قوانین کے تحت لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا ممکن نہیں جبکہ امریکی دورے پر گئی برطانوی وزیراعظم نے ”ٹرمپ“ سے کہا کہ امریکہ، برطانیہ اپنی اقدار کا دفاع کریں مگر ماضی میں واپس جانا دانشمندانہ نہیں۔ ناکام جنگیں اب برداشت نہیں کی جا سکتیں۔ یقیناً امریکی، برطانوی اتحاد ماضی کا ناکام ترین بوجھ ہے جس کو اُتار پھینکنے کی دونوں طرف سے خواہش ظاہر کی گئی ہے۔ مگر بین السطور مواد کچھ اور ہے جس طرز کا رویہ، اعلانات سامنے آرہے ہیں وہ شک نہیں یقین دلاتے ہیں کہ کچھ ایسے اقدامات کرنا مقصود تھے تبھی ”موصوف“ کا انتخاب کیا گیا تاکہ ازاں بعد وضاحتوں سے جان چھوٹی رہے کیونکہ اعلانات سے ہنگامے شروع ہیں۔ ”ایران“ نے جوابی ردعمل میں امریکی شہریوں کے ایران داخلہ پر پابندی عائد کر دی۔ مگر کب تک جواب در جواب کا سلسلہ چلے گا۔ اگرچہ ”امریکی عدلیہ“ نے امیگریشن پالیسی پر بے دخل کئے جانے والے پناہ گزینوں کے حق میں حکم امتناعی جاری کر دیا ہے مگر سوال پھر وہی باقی ہے کہ ”متشدد پالیسی، متشدد اقدامات، متشدد فیصلوں“ کو کون۔ کب سرد کرے گا۔ عالمی قیادت کا تاج ”نئے جانشین“ کی طرف بڑھ رہا ہے جو یقینی طور پر ”چین“ ہے۔ اُمید ہے کہ ممکنہ بلاک کے تشکیل کنندگان دنیا میں برپا جنگوں کے خاتمہ اور انتہاپسندی کے سہولت کاروں توجہ دیں گے۔
”امریکی شریف الدین پیرزادہ“۔
طرزِ زندگی سے لے کر صدارتی احکامات تک سے جھلکتی کاروباری ذہنیت، مملکت کو ذاتی جاگیر سمجھنے کی سوچ تک ہر جگہ اپنے حکمرانوں کی مماثلت دکھائی دی۔ ”صدر ٹرمپ“ کے داماد کا صدارتی مشیر بننے کا راستہ صاف، کمال کی رائے، کمال کا بندہ ”ڈپٹی اسسٹنٹ اٹارنی جنرل“ نے چند سطریں نہیں ”14 صفحات“ پر مشتمل رائے میں قرار دیا کہ اقربا پروری کے حوالے سے وفاقی قانون کا اطلاق ”جیرڈکشنر“ پر نہیں ہو گا کیونکہ ”صدر ٹرمپ“ کو حاصل تعیناتی کا خصوصی اختیار کے باعث ”وائٹ ہاﺅس“ اِس قانون سے مستثنیٰ ہے۔ جمہوریت کا ان داتا ملک استثنیٰ رکھتا ہے صرف بیرونی پالیسیوں کے بارے میں نہیں بلکہ اقربا پروری، ذاتی سلطنت کے ضمن میں بھی جبکہ اِدھر ”استثنیٰ“ پر ہنگامہ بپا ہے۔ سیاست نے کسی ادارے کی حُرمت باقی نہ رہنے دی حتیٰ کہ معزز ”چیف جسٹس“ کہہ اُٹھے ہیں کہ ”عدالتی نظام“ پر حملہ ہو رہا ہے۔ بہرحال امریکی قوم کو ”امریکی شریف الدین پیرزادہ مبارک“۔۔۔
”افسوس رہے گا“۔
شکوہ بجا تھا، اشارہ ٹھیک سمت تھا کہ ”اکیلا“ کیا جارہا ہے، کچھ ”زمین“ نے شکوک پھیلائے، کچھ ”ٹویٹ“ کا تاخیر سے ہونا باعث بنا مگر اب ملک میں کئی مقامات پر حق میں جلوس نکالے گئے۔ بلاشبہ عوام میں بلند رتبے پر تھے اور ہیں مگر سازشی تھیوری کیوں چلی۔ کس نے چلائی؟ سب جانتے ہیں۔ بہت ساری خرابیوں کو ٹھیک کیا مگر بہت کچھ مزید توقعات تھیں بیحد آہنی ہاتھ کی۔ جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی۔ ”شہیدوں کے خانوادہ“ سے تعلق کے ناطے بہت مرتبہ یقین سا ہوا کہ اُس پار کی مسلسل بدتمیزی کا بارود کے ڈھیر سارے پیغام سے اوقات میں لانے کا مگر! بہت نازک مواقع تھے۔ اعصاب شکن لمحات میں سینکڑوں امکانات کہ بس اب کرپشن کے تالاب کو پاتال تک خالی کرنے، دھو ڈالنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کو مگر ”افسوس رہے گا“ کہ توقعات بہت بڑھا دی گئی تھیں۔ بڑھا اس لئے لکھا کہ عزم، اعلانات بہت بڑے بلاشبہ اُمید افزاءتھے۔ ”کراچی“ کے معاملہ میں تاریخ رقم ہوئی۔ دہشت گردی کے دل، دماغ اُڑا دیئے گئے مگر لمحہ موجود کی دنیا صرف جنون رکھنے والوں کی ہے۔ ”ناکام جنگوں“ کا بوجھ رکھنے والوں کی نہیں۔ عوام اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ ”ادارے“ دباﺅ برداشت نہیں کر سکتے۔ عوام ریاست کی سلامتی چاہتے ہوئے ”اداروں“ کی مضبوط چاہتے ہیں۔ عوام ہر مشکل میں ”اعلیٰ عدلیہ، فوج“ کی طرف دیکھتے ہیں کیونکہ انہی عالمی مرتبت اداروں سے ہمیشہ دادرسی، تالیف فراہم ہوتی ہے۔ پہلے سے چلے آرہے طے شدہ طریقہ کار پر تبصروں، خبروں کی ضرورت نہیں تھی۔ شرارتی عناصر کو روکنا ضروری ہے۔ اب پھر افواہ سرگرم ہے کہ طویل سماعت کے بعد ”کمیشن“ بنے گا۔ یقیناً خیال قوی ہے مگر قیاس آرائیاں بدگمانی کے علاوہ کچھ نہیں کرتیں۔ ہاں بداعتمادی پیدا کر سکتی ہے جو پہلے ہی مندمل نہیں ہو پائی۔ ہمیں بدلتے حالات سے نمٹنے کی خاطر متحد ہونا چاہیے ناکہ ناکام جنگیں لڑ کے۔ ہزاروں گنوانے، اربوں کے نقصان کے بعد پچھتانے والوں کی صف میں کھڑے متاسف نظر آئیں۔