لاہور (نامہ نگار) پولیس افسروں اور اہلکاروں کو غلط تفتیش اور غیر قانونی طور پر لوگوں کوحراست میں رکھنے پر سخت سزائیں اور نئی قانون سازی کرنے کے فیصلے پر پنجاب پولیس کی جانب سے سخت ممانعت کا انکشاف ہوا ہے۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے سٹینڈنگ سب کیبنٹ کمیٹی برائے قانون سے ابتدائی منظوری لے لی جبکہ پنجاب پولیس اپنے موقف پر ڈٹ گئی۔ ذرائع کے مطابق محکمہ داخلہ پنجاب نے مجموعہ تعزیرات پاکستان میں نئی سب دفعہ 167۔اے شامل کرنے کا فیصلہ کیا جس کے مطابق کوئی بھی پولیس افسر جس کو کوئی ذمہ داری یا تفتیش سونپی جائے اور وہ اس میں غیردیانتداری کرے تو اسے 3 سال قید اور جرمانہ کی سزا دی جائے گی جبکہ دوسری نئی شق344 ۔اے کے مطابق کسی کو غیرقانونی حراست میں رکھنے پر افسر کو 7 سال قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔ ذرائع کے مطابق پولیس حکام نے اس فیصلے کو سختی سے مسترد کر دیا اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ پولیس آرڈر 2002 کی دفعہ 156کے تحت پولیس ملازمین کو اختیارات کے غلط استعمال پر سزاکا عمل ہی بہتر ہے جبکہ محکمہ داخلہ پنجاب کا موقف ہے کہ قانون مزید سخت کرنے کیلئے تعزیرات پاکستان میں نئی شق شامل کرنا ضروری ہے۔