لاہور (خبر نگار) پنجاب اور ملک کے دیگر صوبوں کے ہسپتالوں میں غیرمعیاری اور غیر رجسٹرڈ ’’سٹنٹس‘‘ کی فروخت اور دل کے مریضوں پر بے دریغ استعمال کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ کل سپریم کورٹ میں پیش کر دی جائے گی۔ دل کے مریضوں کو غیر معیاری، غیر رجسٹرڈ سٹنٹس بلاوجہ اور بلا ضرورت ڈالے جانے کا معاملہ ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اعجاز احمد سامنے لیکر آئے تھے۔ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر غیر رجسٹرڈ سستے سٹنٹس انتہائی مہنگے داموں بلاوجہ مریضوں کو ڈال کر کروڑوں روپے چھاپ رہے ہیں۔ ایف آئی اے نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ پاکستان میں دل میں ڈالے جانے سٹنٹ 2009ء تک بطور ’’دوا‘‘ رجسٹرڈ نہیں تھے۔ ڈسٹرکٹ آفیسر (صحت) کے دفتر نے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ ای ڈی او ہیلتھ جس کے نمائندے ہر سرکاری ہسپتال میں موجود ہوتے ہیں اس نے سٹنٹ کے لائسنس چیک کرنا گوارا نہیں کیا۔ میو ہسپتال میں 400 سٹنٹ 40 ہزار روپے فی سٹنٹ کی قیمت پر منگوائے گئے مگر غریبوں کو یہ مفت سٹنٹ لگائے نہیں گئے ا ور ان کی ’’مدت استعمال‘‘ یا ختم ہونیوالی ہے یا ہو چکی ہے۔ دوسری طرف جو سٹنٹ اس وقت استعمال ہو رہے تھے ان میں ہالینڈ اور امریکہ سے منگوائے گئے۔ 3 مختلف کمپنیوں کے سٹنٹ کی قیمت 40 ہزار، 52 ہزار اور صرف 12 ہزار 500 روپے نکلی۔ جبکہ ڈاکٹر یہی سٹنٹ ایک لاکھ، ڈیڑھ لاکھ اور اس سے بھی زیادہ میں ڈالتے تھے۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق پاکستان کی کسی ڈرگ ٹیسٹ لیبارٹری میں سٹنٹ کی اہلیت جاننے کی صلاحیت نہیں ہے۔ سٹنٹ رجسٹرڈ کروانے والے درآمد کنندگان سٹنٹ کا معیار جانچنے کیلئے مطلوبہ سامان بھی لیبارٹریوں کو ’’خود‘‘ مہیا کرتے۔ ایف آئی اے نے ’’ذمہ داروں‘‘ کا تعین کر لیا ہے اور آج ان کے خلاف مقدمہ اندراج کا امکان ہے۔