جوناتھن سو فٹ (Jonathan Swift) 1667ء میں آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں پیدا ہوا، اسے انگریزی میں طنزیہ تحریریں لکھنے کا زبردست ماہر مانا جاتا ہے اس نے کئی ایسی تحریریں لکھی جو اس دور کی حکومت کو ناگوار بھی گزریں۔ اپنی حفاظت کومدنظر رکھتے ہوئے پہلے پہل اس نے اپنی تحریریں فرضی نام سے شائع کروائیں۔ بنیادی طورپر وہ آئرش لوگوں کے حقوق کی بات کرتا تھا اور انگریز حکومت کی آئرلینڈ مخالف پالیسیوںکو شدید تنقید کا نشانہ بناتا تھا سوفٹ کی اس دور کی تحریروں کو پڑھا جائے تو وہ آج کے حالات پر بھی بالکل صادق آتی ہیں۔اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’گلیورز ٹریولز‘‘ (Gulliver's Travel) میں وہ اپنے ہیرو کے ذریعے مختلف سفروںکے حالات بیان کرتا ہے۔اپنے تیسرے سفر میں وہ ایک اُڑنے والے جزیرے لیپوٹا جا پہنچتا ہے یہ ایک ہے۔ اس جزیرے کے لوگ ریاضی اور موسیقی کے دلدادہ ہیں۔ یہاں گلیور جلد ہی بور ہو جاتا ہے اورجزیرے کے بادشاہ سے درخواست کرتا ہے کہ اسے وہاں سے جانے کی اجازت دی جائے اسے اجازت مل جاتی ہے اور وہ لگا ڈو شہر کے پہاڑ پر اتار دیا جاتا ہے۔ وہاں اس کی ملاقات منوڈی نامی شخص سے ہوتی ہے جواسے بتاتا ہے کہ یہاں کے کچھ لوگ لیپوٹا گئے تھے اور وہاں سے نئی نئی تیکنیکس سیکھ کر آئے ہیں۔ انہوں نے یہاں ایک اکیڈمی بنائی ہے تاکہ لگاڈو کی ترقی کیلئے کچھ بہتر ایجاد کیا جا سکے۔ ابھی تک وہ کچھ ایجاد تو نہیں کر سکے تاہم وہ مختلف منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ وہ اسے اکیڈمی لے جانے کی بات کرتا ہے۔جب گلیور اکیڈمی پہنچتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ وہاں ماہرین مختلف قسم کے ناقابل عمل تجربوں میں مصروف ہیں۔ ایک آدمی وہاں کھیرو ںسے سورج کی شعائیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے اور دوسرا برف سے بارود بنانے کا فارمولہ ایجاد کرنے میں لگا ہوتا ہے، اسی طرح ایک شخص جلتی ہوئی آگ پر ہتھوڑے مارکر اسے پھیلانے پر ایک مقالہ لکھ رہا ہوتا ہے۔ ایک ماہر تعمیرات عمارت کو چھت کی طرف سے شروع کرکے زمین کی طرف تعمیر کرنے کا طریقہ ایجاد کرنا چاہتا ہے۔ ایک اندھا استاد اپنے اندھے شاگردوں کو یہ سکھاتا ہے کہ چھو کر اور سونگھ کر رنگوں کی پہچان کیسے کرنی ہے۔ ایک شخص مرے ہوئے جانوروں میں پھرسے جان ڈالنے کاطریقہ ایجاد کرنا چاہتا ہے۔ ایک ڈاکٹر بھی وہاں موجود ہے جو پھونک مارکر علاج کرنا چاہتا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ وہ مریض کو پھونک مارے جو اس کے آر پار چلی جائے اور اپنے ساتھ ساری بیماریاں بھی باہر لے جائے۔ایک پروفیسر اپنے طلبہ کو ایک مشین کے ذریعے پڑھا تا ہے جو پورے لیکچر کو گڈمڈ کرتی جاتی ہے اورعجیب و غریب الفاظ بناتی ہے۔ پروفیسر صاحب پھر بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مشین کے ذریعے کوئی بھی فلسفے اور سیاست پر کئی زبردست کتابیں لکھ سکتا ہے۔
ایک پروفیسر اپنے شاگردوںکوپاپڑوںپر لکھے ہوئے ریاضی کے فارمولے کھلا کر ریاضی پڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک ماہر لسانیات لگا ڈو میںبولی جانے والی زبان میں سے nouns کے علاوہ تمام الفاظ نکال کر اسے آسان بنانے کی کوشش میں ہے ،اس کا خیال ہے کہ زیادہ الفاظ بولنے سے انسانی جسم جلدی ختم ہوسکتا ہے اور مزید یہ کہ چیزوں کا نام بولنے سے بہتر ہے کہ آدمی وہ چیز ہی اٹھا کر پھرتا رہے۔
بظاہر تو جوناتھن سوفٹ نے یہ سب کچھ انگلینڈ میں 1660 ء میں قائم کی گئی رائل سوسائٹی آف لندن پر تنقید کرنے کیلئے بیان کیا تھا تاہم یہ سب کچھ ہماری موجودہ سیاست پربھی پورا ترتا نظر آتا ہے۔ کوئی شعبدہ بازی دکھانا چاہتا ہے تو کوئی روٹی دینے کا بناوٹی نعرہ لگاتا ہے حالانکہ اس کا اپنا پیٹ ہی نہیں بھرتا‘ کوئی افراتفری پھیلا کر اقتدار میں آنا چاہتا ہے کوئی خلائی قلعہ تعمیر کر کے اس میں خود کو وزیراعظم بنا دیکھتا ہے کوئی عجیب و غریب پیش گوئیاں کرتا رہتا ہے کوئی محض پھونک مارکرتمام مسائل حل کرنے کاخواہاں ہے اورتو اور کوئی آمریت کے بیمارگھوڑے میں جان ڈالنے کا متمنی ہے کوئی سیاست کی الف ب سے بھی واقف نہیں اورخودکو اس کا چیمپئین سمجھتا ہے اور کوئی بول چال میں چاشنی پیدا کرنے کیلئے اس میں گالم گلوچ شامل کرتا جا رہا ہے اور ہر منہ سے اپنے ہی گیت سننا چاہتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ’’ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔‘‘