روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی الوداع کہنے کی ہمت نہ ہو سکی۔ پھر بلائے جانے کی عرضی اور آس کے ساتھ چل دئیے۔غریبوں کے والی تیری فقیری کو سلام۔دور حاضر کے ارب کھرب پتی نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی عیش و مستی کی جانب بھی اک نظر رحم عطا ہو جائے۔ غریبوں کے امیر ترین کرپٹ ترین بد مست حاکموں کی ہدایت کے لئے بھی اک دعا ہو جائے۔ پاکستان کے غریب عوام کے بد عنوان امیروں کے قلوب پلٹنے کی بھی کوئی دوا ہو جائے۔ نسل در نسل حکمرانی کرنے کے جنون کے لئے بھی کوئی سزا ہو جائے کہ اس ملک کا غریب ہر روز سزا بھگت رہا ہے۔ اندھے پیروکاروں کی کفالت ریئس قائدین کے رئیس بچوں کے سپرد کی جائے گی ؟یہ قوم اسی سلوک کی مستحق ہے۔آزادی اور غلامی دونوں ذہنی ریاستیں ہیں، جنہوں نے پنجرے میں اپنی زندگی گذاری۔ غلام موروثیت کا پیروکار ہی نہیں دولت کی چمک دمک کا اسیر بھی ذہنی غلام ہوتا ہے۔حکمرانی و سیاست غریب ملک پر اور اثاثوں کے ڈھیر امیر ملکوں میں محفوظ ؟ایک بار جبرائیل علیہ سلام نبی کریم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرائیل کچھ پریشان ہیں آپ نے فرمایا جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپ کو غمزدہ دیکھ رہا ہوں۔ جبرائیل نے عرض کی اے محبوب کل میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کر کے آیا ہوں اس کو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوئے ہیں۔ نبی کریم نے فرمایا جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتا¶۔ جبرائیل نے عرض کی جہنم کے کل سات درجے ہیں۔ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا۔اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈالیں گے۔اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے۔چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے۔تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے۔دوسرے درجے میں اللہ تعالی عسائیوں کو ڈالیں گے۔یہ کہہ کر جبرائیل علیہ سلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم نے پوچھا جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاو کہ پہلے درجے میں کون ہوگا جبرائیل علیہ سلام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول پہلے درجے میں اللہ پاک آپ کے امت کے گنہگاروں کو ڈالیں گے۔
جب نبی کریم نے یہ سنا کہ میری امت کو بھی جہنم میں ڈالا جاے گا تو آپ بے حد غمگین ہوئے اور آپ نے اللہ کے حضور دعائیں کرنا شروع کیں۔ تین دن ایسے گزرے کہ اللہ کے محبوب مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لاتے نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جاتے اور دروازہ بند کرکے اللہ کے حضور رو رو کر فریاد کرتے۔صحابہ حیران تھے کہ نبی کریم پہ یہ کیسی کیفیت طاری ہوئی ہے۔مسجد سے حجرے جاتے ہیں گھر بھی تشریف لیکر نہیں جا رہے۔ جب تیسرا دن ہوا تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رہا نہیں گیا وہ دروازے پہ آے دستک دی اور سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہیں آیا۔ آپ روتے ہوے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور فرمایا کہ میں نے سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہ پایا لہذا آپ جائیں آپ کو ہوسکتا ہے سلام کا جواب مل جائے۔آپ گئے تو آپ نے تین بار سلام کیا لیکن جواب نہ آیا۔حضرت عمر نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھیجا لیکن پھر بھی سلام کا جواب نہ آیا۔حضرت سلمان فارسی نے واقعے کا تذکرہ علی رضی اللہ تعالی سے کیا انہوں نے سوچا کہ جب اتنی عظیم شخصیات کو سلام کا جواب نہ ملا تو مجھے بھی نہیں جانا چاہیئے بلکہ مجھے ان کی نور نظر بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنھا کو اندر بھیجنا چاہئے۔ لہٰذا آپ نے فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کو سب احوال بتا دیا آپ حجرے کے دروازے پر تشریف لائیں۔
”ابا جان السلام علیکم“
بیٹی کی آواز سن کر محبوب کائنات اٹھے دروازہ کھولا اور سلام کا جواب دیا۔ابا جان آپ پر کیا کیفیت ہے کہ تین دن سے آپ یہاں تشریف فرما ہیں۔ نبی کریم نے فرمایا کہ جبرائیلؑ نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ میری امت بھی جہنم میں جاے گی فاطمہ بیٹی مجھے اپنے امت کے گنہگاروں کا غم کھائے جا رہا ہے اور میں اپنے مالک سے دعائیں کررہا ہوں کہ اللہ انکو معا ف کر اور جہنم سے بری کر یہ کہہ کر آپ پھر سجدے میں چلے گئے اور رونا شروع کیا یا اللہ میری امت یا اللہ میری امت کے گناہگاروں پہ رحم کر انکو جہنم سے آزاد کر کہ اتنے میں حکم آگیا۔اے میرے محبوب غم نہ کر میں تم کو اتنا عطا کردوں گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے.. آپ خوشی سے کھل اٹھے اور فرمایا لوگو اللہ نے مجھ سے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ روز قیامت مجھے میری امت کے معاملے میں خوب راضی کریں گے اور میں نے اس وقت تک راضی نہیں ہونا جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں نہ چلا جاے۔آقا کی رحمت پر کروڑوں سلام۔ہمارا نبی اتنا شفیق اور غم محسوس کرنے والا اور بدلے میں ہم آپ کو کیا دے رہے ہیں۔۔ ؟؟جہنم کے نچلے ترین درجہ میں جانے کا سامان بنا رہے ہیں۔۔؟؟
٭٭٭٭٭