قارئین! انسانی تاریخ میں انصاف کے تقاضے سوفیصد نہ پورے ہوئے اورنہ کبھی ہونے کی توقعات وابستہ کرنی چاہئیں۔ کم از کم پچھلے تین سو سال سے انسان ایک جدید معاشرے کی طرف گامزن ہے لیکن اس سے پہلے کی تاریخ ناانصافیوں، ظلم، جنگ وجدل سے بھری پڑی ہے۔ بادشاہت یا ملوکیت کا دور دورہ تھا۔ حتیٰ کہ اس دور کے قبائلی نظام کا آج کے جدید دور سے موازنہ کرنا مشکل ہے۔ ہم اکثر اوقات گذشتہ صدی کے واقعات کا احاطہ کرتے ہیں تو دوسری جنگ عظیم کے دوران ہمیں برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کے اپنی کابینہ کے سامنے بولے جانے والے یہ الفاظ یاد آتے ہیں کہ ’’ہمیں ہٹلر کے لندن پر حملے کی کوئی پرواء نہیں کہ اگر ہمارے تمام ادارے اپنا کام کر رہے ہیں اور ہماری عدالتیں انصاف مہیا کر رہی ہیں‘‘ مگر شومئی قسمت پوری اسلامی تاریخ اور ان کے بادشاہ، سلاطین اور امراء ہمیشہ انصاف کے تقاضوں کو اپنے اقتدار کے نیچے روندتے چلے آئے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خلفائے راشدین کے بعد مسلم معاشرے سے انصاف ناپید ہونا شروع ہو گیا، ہر دورمیں ایک نئے طالع آزما نے اپنے سیاہ کارناموں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے اسی معاشرے ،انہی عدالتوں اور اس کے ججز کو استعمال کیا گیا۔
قارئین! نوائے وقت کو میاں نوازشریف صاحب کے دوسرے دورِ حکومت جس میں ان کے برادر شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے کی ایک ریکارڈ گفتگو منظر عام پر آئی۔ اس آڈیو میں صاف سنائی دیتا ہے کہ دو معزز جج صاحبان پنجاب کے حاکمِ اعلیٰ سے ان کے مخالفین کو سزا دینے کے متعلق گفتگو فرما رہے ہیں۔ پھر اکثر اوقات جب بھی کبھی نئے طالع آزما کو ضرورت پڑی تو نظریۂ ضرورت کی اصطلاح استعمال کی اور آج خود سابق وزیراعظم میاں نوازشریف صاحب کو اپنے عہد کے قاضیوں سے بھرپور شکایت ہے جس کا اظہار وہ عوامی جلسوں کے دوران کرتے ہیں۔ ایک پرانی حکایت ہے کہ دیر سے انصاف مہیا کرناانصاف کو دبانے کے مترادف ہے۔ پنجاب سمیت پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے کچھ فیصلوں اور انتظامی تبدیلیوں کو صاحبِ نظر لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آج یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ ججز کی تقرریوں سے لے کر نئے جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیرات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دیئے جانے والے ٹھیکوں کو شفافیت کی عینک لگا کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر ملتان جوڈیشل کمپلیکس اور پنجاب بھر میں ضلعی اور ڈویژنل سطح پر جوڈیشل تعمیرات کے ٹھیکوں میں گھپلوں کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار چوہدری نے اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے اور زرداری حکومت کو اپاہج بنانے کے لیے ازخود نوٹس لینے کا انوکھااور اندھا دھند رواج ڈالا تھا چونکہ ایسے ازخود نوٹس لینے سے عام پبلک کو انصاف کی فراہمی میں تیزی نظر آئی تو اس کی ڈیمانڈ بڑھنے لگی اور آج یہ وقت آ گیا ہے کہ کسی جگہ پولیس مقابلہ ہو یا روڈ ایکسیڈنٹ یا کسی جگہ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کے ایمرجنسی روم میں لیٹ پہنچنے پر لواحقین کی طرف سے ہسپتالوں کی توڑ پھوڑ حتیٰ کہ ماں بیٹی کی چپقلش ہو جانے تو ازخود نوٹس لینے کی استدعا کی جاتی ہے۔ اس تمام عمل کے دوران شایدانصاف کی فراہمی سُبک ہو جاتی ہے مگر بلحاظ مجموعی اس کے کاروبارِ مملکت اور ملکی اداروں پر سائیڈ افیکٹ پڑتے ہیں اور اکثر انتظامی ادارے یہ سوچ کر کاروائی کا آغاز نہیں کرتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر چیف جسٹس صاحب نے نوٹس لے لیا تو پھر ہم اپنی کارکردگی دکھا دیں ،اگر عدالت نے نوٹس نہ لیا تو معاملے کو کمیشن یا کمیٹی بنا کر ٹالنے کی کوشش کی جائے گی۔
قارئین! اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشی کرپٹ اور بدکردار سیاست دانوں کا احتساب بہت ضروری ہے اور یقینا ہمیں ابتدابھی انہی سے کرنی چاہیے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ریٹائرڈ یا حاضر سروس بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا بے دریغ اور بے رحمانہ احتساب بھی ہونا چاہیے اور اگر کالمسٹ، اینکر اور صحافی خود کو ریاست کا چوتھا ستون گردانتے ہیں تو انہیں بھی کڑے احتساب کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ میری پاکستان کی معزز عدلیہ سے استدعا ہے کہ اس نیک کام کا آغاز راقم سے کیا جائے گا اورمیں خود کو رضاکارانہ طور پر پاکستان کی عدلیہ اور نیب کے سامنے سرنڈر کرنے کو تیار ہوں لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کتنے بیوروکریٹس، اسٹیبلشمنٹ افسران اور ججز ایسے ہیں کہ جن کے پاس غیرملکی پاسپورٹ ہی نہیں بلکہ غیر ملکی شریکِ حیات بھی رکھتے ہیں جو کہ پاکستان کے آئین کی نفی ہے۔ پنجاب کے موجودہ چیف جسٹس کی تقرری ہوئی تو میرے سمیت کروڑوں لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ دراصل چیف جسٹس صاحب نے جو خوش کن دعوے کیے تھے ان میں بڑی کشش تھی ۔ مثال کے طور پر آج سے ساڑھے چھ سال پہلے کچھ لوگوں نے مجھے غلط معلومات دے کر میرا لاہور والا مکان کرائے پر لیا اور جب 2012ء میں، میں نے مکان کی واپسی کا تقاضا کیا تو مجھ پر بے بنیاد اور جھوٹا کیس کرکے مجھے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ میرے مخالفین نے جھوٹ کا سہارا لیا تھا اس لیے پانچ سال بعد سیشن کورٹ لاہور نے میرے کرائے داروں کو دو ماہ کے اندر مکان خالی کرنے کا حکم دیا اور ساتھ یہ حکم بھی صادر فرمایا کہ وہ مجھے پچھلے پانچ سالوں کا بقیہ کرایہ پچاس لاکھ روپے ادا کریں۔ میرا کرائے داروں نے ایک اور سیشن جج سے اس پر نظرثانی کی درخواست دی مگر چونکہ کچھ تبدیل ہونے والا نہ تھا اس لیے دوسرے معزز جج نے بھی پہلے معزز جج کے فیصلے کو برقرار رکھا کیونکہ میری مخالف حیلے بہانوں سے وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں اس لیے انہوں نے سیشن جج کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کر دی اور ساتھ ہی مخالف پارٹی کے وکیل نے میڈیکل آپریشن کا بہانہ کرکے دو ماہ بعد سماعت کی تاریخ لے لی۔ تو جناب چیف جسٹس پنجاب ، ایک اوورسیز پاکستانی جو ساڑھے چھ سال سے عدالتوں کے دھکے کھا رہا ہے اور لاہور جہاں میرا گھر ہے وہاں مجھے رات گزارنے کے لیے ہوٹل میں ٹھہرنا پڑتا ہے تو پھر حکومت کا یہ اعلان کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کے مکانوں، پلاٹوں اور پراپرٹی پر قبضہ کرنے والے قبضہ مافیا کے خلاف نوے دن کے اندر کارروائی کرکے انصاف مہیا کریں گے یہ دعوے دھر کے دھر ے رہ گئے ہیں۔ میری چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جناب منصور علی شاہ صاحب سے درخواست ہے کہ آپ مجھے انصاف دلانے کے لیے میرے اس کالم کو پٹیشن سمجھتے ہوئے خود بخود کارروائی کا آغاز کریں وگرنہ اوورسیز میں آباد ایک کروڑ سے زائد پاکستانی یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ اگر راقم جیسا بیس کتب کا مصنف، شاعر اور سینئر کالم نگار کرائے داروں سے اپنا مکان خالی نہیں کروا سکتا تو پھر گلف اور امارات میں آباد ایک غریب اور مزدور پاکستانی حکومتِ وقت اور عدلیہ سے کیا توقعات رکھ سکتا ہے؟ میں نے طوطا اور مینا کی کہانی میں اجاڑ بستی کا ذکر کیا تھا۔جناب چیف جسٹس منصور علی شاہ صاحب بستیاں، شہر اور مملکتیں اجاڑ اور ویران ہو جایا کرتی ہیں جب وہاں سے انصاف اُٹھ جائے اور میں دیکھتا ہوں کہ جناب چیف جسٹس منصور علی صاحب مجھے انصاف مہیا کرتے ہیں کہ نہیں۔