قارئین آپ بلکہ ہم سب ہمیشہ سے پڑھتے سنتے آئے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے وہ حق کی خاطر مجرم اور بے گناہ کے درمیان تفریق کر کے فوری طور پر عمل میں آجاتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے تاکہ معاشرے کا کمزور اور بے بس طبقہ اس کی عملداری سے مستفید ہوسکے اور طاقتور طبقہ اس پر اپنی اجاری وادی قائم کرنے سے باز رہے اگر ہم نے معاشرے کو ہر سطح پر متوازن بلکہ راست رکھنا ہے تو پھر فوری طور پر اسلامی سزائوں کو بحال کرنا ہوگا یقین کیجئے اگر ایسا نہ کیا گیا تو جرائم کی انتہائوں کو چھو لینے والا کوئی بھی اندھا مجرم اپنے اندھے ظلم و ستم سے تائب نہیں ہوگا کس قدر دکھ کا مقام ہے بلکہ لمحہ موجود ہیں سمجھ نہیں آتی وطن عزیز میں جو نظر خیرہ سرخ حالات ہیں ان پر کسطرح قابو پایا جاسکے گا؟
کیا ہم مسلمان ہیں جو آسمانی کتاب کا عطا کردہ مکمل ضابطہ حیات رکھتے ہیں؟ ہر وقت ہر ساعت ہر لمحہ خاک و خون میں غلطاں و پیچاں ہیں؟ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں، جھوٹ در جھوٹ بولتے ہیں، طعنوں تشنوں اور جھگڑوں تنازعوں کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں شاید اسی لئے کسی حکمران کو کسی سیاستدان کو آٹھ بچیوں کے ساتھ ہونے والی درندگی کی کانوں خبر تک نہ ہوئی جبکہ کچھ ماہ پہلے نام نہاد غیرتی قتل کے نام پر ایک بھرپور نوجوان لڑکی کو اینٹوں کی جلتی ہوئی بھٹی میں ڈال دیا گیا؟ جبکہ عورتوں کے ناک کاٹنا، آنکھیں نکالنا، زہر پلا کر مار ڈالنا تو روز مرہ کی بات ہے۔ یقین نہیں آتا یہ دم بخود کردینے والی خون آلود خبریں بلکہ اس نوعیت کی درجنوں آدم خور خبریں ایک خالصتاً اسلامی ملک میں رونما ہوئی ہیں یا ہوتی رہتی ہیں؟ کیا یہ قہر ہے، یہ درندگی، یہ سفاکی عقل و شعور اور انسانیت و اخلاقی اقدار سے یکسر عاری مسلمانوں ہی کا مقدر ہیں؟ کوئی نہیں سمجھتا کہ ذاتی طور پر ان کی اپنائی ہو یہ درندگیاں کس قدر جان لیوا ہیں انکا کوئی اصول ہے، نہ کوئی ضابطہ، نہ خدا رسولؐ سے کوئی رابطہ بس دل و روح کے اندھے درندے محض چارہ کھانے والے جانور رہ گئے ہیں۔ لگتا ہے ان کی سنوار کا کوئی امکان باقی نہیں رہ گیا صرف ایک آخری چارہ کار یہ رہ گیا ہے کہ قانون و انصاف کی بالا دستی کیلئے فوری طور پر اسلامی سزائیں بحال کردی جائیں آنکھ کے بدلے آنکھ، کان کے بدلے کان اور جان کے بدلے جان کا شرعی قانون لاگو کردیا جائے اگر دیار حبیبؐ سعودی عرب میں اسلامی سزائوں پر مسلسل، عمل در آمد ہو رہا ہے تو یہاں کیا مجبوری ہے؟ جبتک ہمارے سفاک بلکہ درندہ صفت معاشرے میں شمشیر سے سر قلم کردینے کی سزا رائج نہیں ہوگی، انسانیت سوز جرائم کی جڑ بزور شمشیر ختم نہیں کی جائے گی تب تک اینٹوں کی تپتی جلتی بھٹیوں میں انسانی گوشت پوست کو درجنوں انسان نما درندوں کی موجودگی میں بھونا جاتا رہے گا بلکہ بھکر میں مردے بھی قبروں سے نکال نکال کر باقاعدہ بھون کر کھائے جاتے رہیں گے، جب تک آنکھ کے بدلے میں درندوں کی آنکھیں نہیں کھرچی جائیں گی زینب کے قاتل پر سنگباری کیلئے ہر پاکستانی ہاتھ میں پھر نہیں اٹھا لے گا، چوری پر ہاتھ کاٹ کر چوروں کے ہاتھوں کو خود ان کے اپنے گریبانوں میں نہیں لٹکایا جائے گا تب تک معاشرہ سکون کا سانس نہیں لے سکتا۔ یقین کامل ہے کہ اگر مظلوموں کو انصاف دیا جائے، ان مقہوروں کو نا انصافیوں کے حوالے نہ کیا جائے اور مذہب کی مکمل روح کے مطابق اسلامی سزائیں بحال کردی جائیں تو ملک میں ظلم و درندگی کا تناسب گر جائے گا وطن عزیز میں اس وقت اس جتنی اخلاقی افراتفری، جنسی بے راہ روی، اور ایک دوسرے پر روحانی، نفسیاتی اور جسمانی بیہمانہ تشدد جاری و ساری ہے اس کا کسی دوسرے مہذب معاشرے میں تصور تک ناممکن ہے اسلامی سزائوں کی بحالی سے معاشرے کے مظلوم ترین طبقے خاص طور پر خواتین کے حقوق کی بھی نہ صرف پاسداری ہوگی بلکہ وہ براہ راست قانون کی پناہ میں آجائیں گے جبکہ معصوم بچے بچیوں کی زندگیاں بھی محفوظ ہو جائیں گی۔
آخر میں حکمرانوں سے کہنا یہ بھی ہے کہ ایک مکمل پر سکون معاشرے کی ضمانت کے طور پر اسلامی سزائوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ تعلیم کو بھی سانس کی طرح ناگزیر قرار دیا جائے پاکستان کا کوئی ایک بھی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہنے پائے گلی گلی، کوچہ کوچہ گھر گھر سکول کھولے جائیں تاکہ ہر بچہ پڑھ لکھ کر خود اپنے حقوق کی حفاظت کرسکے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے عریاں مکالموں، ننگی فلموں اور بے حجاب ڈراموں سے مزین تھیڑ بند کئے جائیں مکمل طور پر مکمل ضابطہ حیات عطا کرنے والی آسمانی کتاب پر عمل درآمد ضروری قرار دیا جائے۔