سینٹ؟ دیدو شنید اور مشاہدہ

Jan 30, 2018

محی الدین بن احمد الدین

بلوچستان، پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگی حکومتیں تھیں۔ بلوچستان میں کچھ اتحادی شامل تھے البتہ مرکز کے اتحادی مولانا فضل الرحمان بلوچستان میں شامل حکومت نہیں تھے۔ بلوچستان کے حوالے سے مولانا شیرانی زمینی حقائق اور سیاسی ’’زاد راہ‘‘ پر یقین رکھنے والے سیاسی ذہین ہیں۔ فضل الرحمان تو ’’زاد راہ‘‘ پر ضرورت سے بھی کہیں زیادہ ’’یقین محکم‘‘ رکھنے والے سیاست دان مولانا ہیں۔ سیکولر محمود اچکزئی کی افقاو طبع اور ہے اور مولانا کی اور ماضی میں مولانا عبدالغفور حیدری مولانا فضل الرحمان کی سیاست میں مہارت اور صدر آصف زرداری کی کہنہ مشق صابرانہ حکمت عملیوں کا کھیل تھا۔ اب بلوچستان کی وزارت اعلیٰ مسلم لیگ ن کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔ یقیناً اراکین اسمبلی کو ذاتی سطح پر ترقیاتی فنڈز اگر مرکز دے دے گا تو وہ بات شائد سن لیں گے مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے تنہائی میں صدر مسلم لیگ محمد خاں جونیجو سے پوچھا کہ کبھی آپ کو لیگ کا صدر ہو کر بھی شرمندگی اور بے بسی کا تجربہ ہوا؟ وہ مسکرا پڑے اور کہا ایک مرتبہ ہوا اور وہ بلوچستان کے حوالے سے تھا۔ چیف منسٹر ہمارا تھا۔ مگر اس چیف منسٹر نے از خود دو افراد سے پیسے لیکر ان کو سینٹر بنا دیا۔ اس کاروبار کا سواد ایک صحافی کے ذریعے ہوا تھا۔ میرے لئے مرکزی حکومت کے ہوتے ہوئے اور صدر مسلم لیگ کے ہوتے ہوئے چیف منسٹر کی یہ حرکت اور وہ دو افراد جو پیسے دیکر سینٹر بنے نہایت شرمندگی کا باعث تھے۔ بعدازاں یہ دونوں سینٹر بھی مسلم لیگ کی نمک کان میں ہی آسموئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان نے ماضی میں ایک بہت مالدار ’’سواتی‘‘ کو سینٹر بنوایا تھا کیا یہ مرحلہ ’’مفت‘‘ طے ہوا یا زاد راہ کی فیاضی سے آج مولانا کا موقف ہے کہ وہ اپنے نظریاتی ساتھیوں کو سینٹ میں لائیں گے۔ اسلام آباد میں اکثر باہر کے افراد کو ایڈجسٹ کیا جاتا رہا ہے۔ شنید ہے کہ اس مرتبہ میرے بہت ہی پیارے لیگی دانشور مشاہد حسین سید ٹیکنو کریٹ سیٹ پر سامنے آسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ پھر یقیناً ن لیگ کے امیدوار ہونگے؟ ایک ذاتی تجربہ اور مشاہدہ لکھتا چلوں، مجھے محمد خان جونیجو کی لیگی صدارت عہد میں سینٹر بننے کا شوق چرایا۔ درخواست جمع کرادی۔ مگر بیس ہزار جو پارٹی فنڈ کا لازمی چندہ تھا وہ میرے پاس تھا نہیں۔ جب ٹکٹ دینے والی کمیٹی کے سامنے معاملہ پیش ہوا تو صدر محمد خان جونیجو اور ڈاکٹر بشارت الٰہی فوراً میرے حق میں تھے کہ وزیراعظم نواز شریف ذاتی طور پر لاہور سے تعلق رکھنے والے اقبال احمد خان سیکرٹری جنرل پاکستان مسلم لیگ کو سخت نا پسند کرتے تھے۔ لہٰذا میرا نام محض حسن اتفاق سے زیر غور آرہا تھا۔ مگر چونکہ ساتھ بیس ہزار کی رسید نہ تھی لہٰذا خاموشی چھا گئی۔ اگلے دن ڈاکٹر بشارت الٰہی سے ان کے گھر میں ملنے گیا۔ وہ تو سخت غصے میں تھے۔ ’’پروفیسر اگر تم نے مجھے بتایا ہوتا تو میں رازداری سے تمہارے بیس ہزار پارٹی فنڈ میں جمع کرا دیتا۔ اور یوں تم آسانی سے سینٹ ٹکٹ پا جاتے۔ دیکھو جو کام کرنا ہو اسکی مکمل تیاری اور اسکی جملہ مادی اور سیاسی ضروریات کو پہلے دیکھو۔ پھر قدم اٹھائو اپنے پاس نہ ہو تو قابل اعتماد بزرگ و ساتھی کی مدد لے لو۔ یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ سندھ کے ایک لیگی چیف منسٹر ہوا کرتے تھے جو جنرل مشرف عہد سیاست موثر اور طاقتور تھے۔ جب آصف زرداری کا سندھی عہد طلوع ہوا تو انکو پی پی پی والوں نے بہت تنگ کیا بلکہ پریشان بھی کیا۔ صدر تو زرداری تھے اور وزیراعظم گیلانی کہ سینٹ الیکشن آگئے۔ مسلم لیگ ن مرکز میں اپوزیشن جماعت تھی اسلام آباد سے ق لیگ نے مشاہد حسین سید اور پی پی پی نے انور سیف اللہ کو ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا۔ اچانک میرے ایک بہت ہی پیارے سابق اسپیکر قومی اسمبلی کا پیغام ملا کر فوراً سینٹر بننے کے لئے کاغذات لو۔ دو ایم این اے اسلام آباد میں موجود ہیں۔ فوراً وہ تمہارے ساتھ جا کر الیکشن کمشن کی جملہ آئینی ضرورتوں کو پورا کردیں گے۔ ’’جملہ خرچہ‘‘ تم نے نہیں بلکہ آصف زرداری سے ناراض دوبئی میں بیٹھی شخصیت کے افراد کریں گے۔ میں خاموش رہا۔ اگلے دن رات کو ان کا اپنا فون آیا۔ کاغذات لائے؟ جی نہیں۔ خدا کے لئے صبح جائو۔ کاغذالت لیکر انہیں مکمل کر کے فوراً جمع کرائوں یہ الیکشن میں خود اسلام آباد میں بیٹھ کر لڑوں گا۔ خرچے سے پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں، پروفیسر مجھے مایوس نہ کرنا۔ میں نے پرویز رشید سے بات کی کہ اگر میں میدان میں آجائوں اور اپنے دو ایم این اے کے ہمراہ کاغذات جمع کرادوں تو کیا مجھے ن لیگ کے ووٹ مل سکتے ہیں؟ پرویز رشید ہمیشہ سے نواز شریف کے بہت ہی قریب ہیں۔ چوہدری نثار علی سے کہیں زیادہ قریب وہ بھی میری طرح کا فقیرانہ اور ضدی مزاج کا ہے۔ اس نے حامی بھرلی پروفیسر جائو کاغذات جمع کرا دو۔ میں تمہیں میاں نواز شریف سے سارے لیگی ووٹ دلوانے کی یقین دہانی کراتا ہوں ۔ ایک ماہر نے کہا دو کاغذات جمع کرائو۔ ایک مشاہد کے خلاف بطور ٹیکنو کریٹ انور سیف اللہ خاندان کے خلاف بھی اور کچھ نہیں تو تماشہ ہی کر ڈالو۔ دیکھو تمہارے گھر کروڑوں روپے کے بریف کیس کتنی جلدی اور کتنی راز داری سے آتے ہیں۔ میں بھی تماشے کے لئے تیار تھا۔ مگر حسب عادت نماز استخارہ کرتے کرتے میں نے اللہ تعالیٰ کی راہنمائی یہ حاصل کی۔ ’’محی الدین پیچھے ہٹ جائو، یہ زرداری اور ایک سندھی کی ذاتی لڑائی ہے۔ سیف اللہ خاندان اور مشاہد کی خاطر چوہدری خاندان بھی بہت منتیں کرے گا۔ لیگی ہونے کے حوالے سے دبائو بھی ڈالے گا۔ آخری دن زرداری اور نواز شریف میں ’’رابطہ‘‘ ہو جائے گا۔ مشاہد حسین کے لئے چوہدری سب کچھ دائو پر لگا دیں گے۔ حیرت اور تعجب کو پہلا تجربہ بیس ہزار کے حوال سے ہوا جو میرے پاس نہ تھے میں کسی کو بھی بتانہ سکا میں مالی طور پر بہت کمزور ہوں اور پارٹی فنڈ میں مطلوبہ رقم جمع کرانے سے قاصر۔ دوسرا تجربہ ہوا کہ کروڑوں روپے از خود خرچ ہونے کو بے تاب تھے۔ بقول پرویز رشید مجھے کھڑے رہنے کی صورت میں تمام لیگی ووٹ بھی مل جاتے تھے۔ دونوں مرتبہ میں سینٹ میں نہ جاسکا۔ دوسری مرتبہ (بہت شرم آئی کہ کسی اور کے خرچے پر کیسے سینٹ بنوں؟ لہٰذا فون اٹھایا۔ مشاہد حسین سید کو بھی ایس ایم ایس کردیا میں نے تمہارے مقابلے میں کاغذات جمع کرانے تھے۔ میں اب آپ کے مقابلے میں نہیں ہوں تم بھی لیگی اور میں بھی لیگی مشاہد میری طرف سے بلا مقابلہ سینٹ کی نوید اور مبارکباد، یہ واقعات لکھنے کا مقصد ان نظریاتی سیاسی کارکنوں کو عملی سیاست۔ ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے زاد راہ اور سیاسی معاملات میں مطلوب خود غرضی و عملیت پسندی کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ حج کے لئے بھی تو اللہ تعالیٰ نے ’’زاد راہ‘‘ کا بندوبست کرنے کا حکم دیا ہے۔ جب حج جیسی عبادت کا تعلق وافر رزق و زار دار کی فراوانی سے وابستہ ہے تو عملی سیاست تو قدم قدم پر دولت و مالی، سیاسی حیثیت کو کیش کرنے کی ’’ملکوتی‘‘ صلاحیتوں پر منحصر ہے کیا سینٹ الیکشن ہوجائیں گے یا نہیں ہونگے؟ دونوں صورتوں میں پھڈے، کشمکش، عدم استحکام، 15 مارچ سے اپریل میں ہم ہر طرف دیکھیں گے۔ ویسے مجھے شاہد خاقان عباسی مارچ اپریل میں مطئمین نظر آتے ہیں۔ صوفی محمد 8 سال بعد جیل سے رہا ہوئے ہیں۔ رہائی کے بعد اپنے داماد مولوی فضل اللہ کو گمراہ و خارجی قرار دیا ہے جس نے ان سب کو اور انکی نفاذ شریعت تحریک کو تباہ کیا۔ ملک کو بھی تباہ کرنے میں مصروف رہا۔ دیکھنی والی آنکھیں صوفی محمد کے اس ’’انجام‘‘ کو اسی دن دیکھ رہی تھیں جب وہ جلسہ عام میں ’’عظیم تر سیاسی کردار‘‘ کے طور پر عوام سے مخاطب تھے۔ انہیں آٹھ سال بعد جاکر کہنا پڑا کہ مولوی فضل اللہ گمراہ اور خارجی ہے مخلص مگر سادہ لوح بزرگ صوفی محمد کا واقعہ، تجربہ اور مشاہدہ ہمارے سادہ لوح مذہبی قائدین اور شخصیات کے لئے رہنما اصول اور تجربہ و مشاہد کا وافر سامان فراہم کرتا ہے۔ التجاء ہے کہ مذہبی و سیاسی اہم شخصیات اپنی ذاتی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ دشمن سازشی ہمیں غیر مستحکم کرنے کے لئے اہم مذہبی و سیاسی قائدین کو قتل کروا سکتی ہیں۔

نوٹ: میں نے گزشتہ ایک کالم میں حافظ سعید اور ان کے رفقاء کو مشورہ دیا تھا کہ وہ دو تین سال تک مکمل طور پر غیر فعال و غیر متحرک ہو جائیں بلکہ گوشتہ گمنامی و تنہائی میں چلے جائیں۔ دو تین سال کے اس مجاہدانہ صبرو تحمل و بربادی کا ’’اجر عظیم‘‘ وہ اپنی جھولی میں پائیں گے۔ انشاء اللہ نہایت اخلاص کے ساتھ مشورہ دوبارہ لکھ رہا ہوں۔ اس یقین کے ساتھ کہ وہ نہ تو صوفی محمد ہیں نہ ہی نفاذ شریعت کا آٹھ دن میں نفاذ کا مطالبہ کرنے والے نہ ہی سیاسی ہے یا مذہبی ساحرو جادوگر و ڈرامہ باز بلکہ وہ سچے، مخلص با اصول اور فنا فی الدین و العلم و الصبر ہیں۔ اللہ تعالیٰ انکی ذات کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)

مزیدخبریں