جنرل ضیاء الحق اپنے مارشلائی دور میں ’’سنسنی‘‘ کا لفظ اکثر استعمال کرتے تھے۔ چار عشرے گزرنے کو ہیں کہ سنسنی پھیلانے والے عناصر اس وقت مقابلے میں چار گنا ہو گئے ہیں۔ اس وقت کا الیکٹرانک میڈیا پی ٹی وی تک محدود تھا اور اب تو چینلوں کی بھرمار ہے۔ اخبارات کا بھی شمار نہیں۔ میڈیا اوپن فیلڈ ہے یہاں داخلے کیلئے میرٹ لسٹ نہیں آویزاں کی جاتی۔ جس طرح سڑکوں کا منظر ہوتا ہے کہ ہر کوئی سبقت لے جانے کیلئے ٹریفک قوانین، وارڈنوں حتیٰ کہ انسانی جانوں کی پروا بھی نہیں کرتا اس طرح میڈیا بھی ایک دوسرے کو آگے پیچھے دھکیلنے میں مصروف ہے۔ اینکروں کی بھرمار ہے شور و غوغا ہے۔ ریٹنگ کی دھن میں سنسنی خیزی نے قدم جما رکھے ہیں۔ پیش گوئیاں، دعوے معمولی باتیں ہیں۔ اہلیت اور نا اہلیت صرف سیاست میں ہی نہیں ہر شعبہ زندگی میں درکار ہے۔ نوازشریف کی نا اہلی کا فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کر دیا باقی شعبہ ہائے زندگی میں نا اہلوں کی نشاندہی کون کرے گا؟ زینب قتل کیس کو اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے اتنا اچھالا گیا کہ سب کچھ خلط ملط ہو گیا۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر شور اور سنسنی خیزی کے بعد کچھ دیر کیلئے سکوت طاری ہو جاتا ہے اور پھر کسی نئے سانحے کے بعد پھر شور اٹھتا اور دب جاتا ہے۔ معصوم زینب کا باپ بھی کھلونا بن کر رہ گیا۔ غریب اور مظلوم بغیر قیمت کا کھلونا ہوتا ہے جس سے تماش بین آسانی سے کھیل لیتے ہیں۔ موقع پرست کسی بھی سانحے کے منتظر ہوتے ہیں۔ ہر نئے سانحے پر گزرے ہوئے سانحات کو دہرایا جاتا ہے۔ سرکاری مشینری دھکا سٹارٹ گاڑی سے مختلف نہیں کچھ بھی ہو اپنی جگہ سے نہیں ہلتی۔ عوام کا جم غفیر میڈیا کا واویلا اسے وقتی طور پر ہلنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ اپنی جگہ سے ہل جائے اور درندہ سامنے لے آئے تو مشینری کو موقع محل دیکھے بغیر تالیاں بجانی پڑتی ہیں کہ پولیس والو! تم نے مظلوم پر احسان کیا کہ ظالم کو ڈھونڈ لائے۔ کون سا پولیس والا ایسا ہے کہ کسی سائل کی شکایت پر خود بخود اپنی کرسی سے اٹھ کر اسکی داد رسی کیلئے چل پڑے۔ قانون کی عملداری دکھانے کو ’’ پولیس مقابلہ‘‘ فلم ہٹ ہو جاتی ہے۔ باخبر ترین ہونے کے دعوے دار نئی سے نئی بات سامنے لے آئے۔ 80 بنک اکائونٹس اور وزراء سے یارانوں کا انکشاف کر دیا۔ جنرل ضیاء کے 80 کی دہائی کے سارے دور میں کوڑے ‘ پھانسیاں عام تھیں۔ خوف بھی تھا اس کے بعد آسمان حکمرانی سے ضیائی خوف کے بادل چھٹ گئے بچے بچیوں سے درندگی کے واقعات پے درپے سامنے آنے لگے۔ 2016ء میں جنسی درندگی کے 4139 واقعات درج ہوئے 271 بچوں کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور 100 بچے تو موت کے حوالے کر دئیے گئے۔ 176 بچیوں کو وقت سے پہلے دلہن بننے پر مجبور کیا گیا۔ 2011ء سے 2016 کے دوران بچوں کیساتھ جنسی درندگی کے 19508 واقعات سامنے آئے۔ زینب قتل کیس کی تفتیش میں ابہام کیوں پیدا کیا گیا؟
درندگی کے اخفا میں رہنے والے واقعات الگ ہیں۔ عزت اور شرم سے لوگ کڑوا گھونٹ پی جاتے ہیں۔ اپنی بچیوں کے ساتھ ہونیوالی زیادتی پر مٹی ڈال دیتے ہیں۔ گھر سے بھاگ جانیوالی بچیوں کے والدین ہونٹ سی لیتے ہیں اس لئے کہ معاشرے میں کسی کی بات پر پردہ ڈالنے کا رواج نہیں۔ لوگ نسلوں تک باتیں نہیں بھولتے۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں بچوں سے درندگی کے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے کے مقابلے میں انکی شرح بہت کم ہے۔ عرب ممالک میں ایسے گھنائونے جرائم کی کون جرات کر سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں بے خوفی عام ہے۔ قانون کی عملداری خوف پیدا کرتی ہے۔ ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کی ڈھٹائی کے سامنے قانون اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے کیوں بے بس دکھائی دیتے ہیں؟ قصور میں بچوں کی فحش تصاویر کے سکینڈل پر بھی مٹی ڈال دی گئی تھی ’’مٹی پائو‘‘ ہی ہمارا لا آف دی لینڈ ہے تو پھر مقننہ کی کیا ضرورت ہے؟ جس طرح دہشتگرد اور انکے سہولت کار ہوتے ہیں اسی طرح جرائم پیشہ لوگ بھی سہولت کاروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ طوائف بھی سہولت کار کے بغیر پیشہ نہیں کرتی۔
’’سہولت کاری‘‘ بھی ذریعہ معاش بن چکا ہے۔ عدالتوں‘ نادرا‘ پاسپورٹ‘ ڈرائیونگ لائسنس دفاتر کے باہر ٹائوٹ سہولت کار ہی تو ہیں۔ گھریلو ملازم بھی سہولت کاروں کے زمرے میں آتے ہیں۔ شواہد کے بغیر باتیں کرنا معمول بن چکا ہے ہم ایک دم سے کسی کے بارے میں وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جسے ثابت کرنا ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔ میڈیا کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس کون دلائے گا۔ دنیا والے ہمارے میڈیا کے ایک ایک حرف لکھے اور بولے گئے دونوں کو اپنے ریکارڈ کا حصہ بناتے ہیں۔ ہر سفارتخانہ اپنے ملکوں کو یومیہ بنیاد پر ہمارے احوال سے اپنی حکومتوں کو آگاہ کرتا ہے۔ ہم اسلامی معاشرہ کہلاتے ہیں۔ لوگ ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتے ہوں گے۔ ہم اپنے پیٹ کو خود بار بار ننگا کرکے دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔ ملک میں ایسی لابی موجود ہے جو ملک دشمن ہی نہیں اسلام دشمن اور جمہوریت دشمن بھی ہے۔ غیر مصدقہ باتیں پھیلانے سے سسٹم کمزور پڑ رہا ہے۔ ہماری اپنی کمزوریوں کو دیکھ کر امریکہ ہم پر حاوی ہوتا جا رہا ہے۔ ہم اسکے ڈرون حملے کے جواب میں اس کا کیا بگاڑ لیتے ہیں۔ وہ ہمارے دفتر خارجہ کے بیانوں کو کیا سمجھتا ہے؟
زینب قتل کیس میں سنسنی پھیلانے اور حساس معاملات پر پوائنٹ سکورنگ سے گریز کے ساتھ جرائم خاتمہ کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جائیں معصوم بچوں کے ساتھ درندگی سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ مردان کی عاصمہ بھی انصاف کی متلاشی ہے۔ قصور میں ہونیوالے ویڈیو سکینڈل کی بھی ازسرنو تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔ نیوز چینلز اور ناظرین کے مابین اعتماد کا رشتہ ہے جو اس وقت مجروح ہوتا ہے جب ناظرین کو ملنے والی معلومات غلط ثابت ہوتی ہیں۔ رائے درست اور غلط ہو سکتی ہے لیکن دی جانے والی انفارمیشن کو100 فیصد درست ہونا چاہئے۔ قیاس اور سنی سنائی بات لکھی یا نشر نہیں کی جا سکتی۔ ہر خبر کا نشر ہونے سے پہلے فلٹر سے گزرنا ضروری ہے۔ لائیو ٹاک شوز میں فلٹر موجود نہیں ہوتا۔ ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے ہو رہے ہوتے ہیں۔ کچھ اینکرز فلٹرز کو اکثر بائی پاس کر جاتے ہیں۔ جنرل ضیاء نے ’’سنسنی‘‘ کا لفظ اس دور کی اخباری خبروں کیلئے استعمال کیا تھا۔ اب بعض اخبارات کے ساتھ ٹی وی چینلز بھی جن کی تعداد بیسیوں ہے۔ نیوز کوریج میں سنسنی کا دامن تھام لیتے ہیں۔ پانی کی فلٹریشن کی طرح نیوز فلٹریشن بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ بابائے صحافت مجید نظامی مرحوم و مغفور نے نیوز فلٹریشن کی بنیاد رکھی تھی۔ جس پر نوائے وقت آج بھی قائم ہے۔ مسجد کے مصلے پر حافظ اگر قاری نہ ہو تو نماز کا مزہ نہیں آتا۔ ہر مقتدی اس بات کا اہل نہیں کہ اسے مصلے پر کھڑا کر دیا جائے۔ اسی طرح میڈیا اور تعلیم دو اہم شعبے ہیں جہاں نااہلیت کی گنجائش نہیں۔
آج کے دور میں سرمایہ کاری وہیں ہوتی ہے جہاں تعلقات کا نیٹ ورک پھیل سکے اور پیسے کی بارش ہو۔ جنرل مشرف کی 2002ء میں آمریت نے پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کیلئے راستہ ہموار کیا تھا۔ چنانچہ سرمایہ کاری کا رخ پرائیویٹ یونیورسٹیوں اور ٹی وی چینلوں کی طرف ہونے لگا۔ تیسرے نمبر پر ہائوسنگ سوسائٹیاں آ گئیں۔ اس وقت سرمایہ کاری کے حوالے سے ہائوسنگ سکیمیں رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہیں۔ دوسرے نمبر پر پرائیویٹ ہسپتال اور تیسرے نمبر پر تعلیمی ادارے ہیں۔ ہر شعبے میں چیک اور کراس چیک کی ضرورت ہے۔ جہاز کا کپتان بھی اڑان بھرنے سے پہلے عملے کو چیک اور کراس چیک کا حکم دیتا ہے۔ سٹیٹ بنک کے اعلان کے بعد کہ زینب کے ملزم کے اکائونٹ نہیں‘ اینکر کے غیر معتبر ہونے کیلئے کافی نہیں!