شاہد لطیف
یہ 1990کے اوئل کی بات ہو گی جب میں اپنے ٹیلی وژن کے ساتھی پروڈیوسروں ،افتخار مجاز، آغا ذوالفقار، حفیظ طاہر اور منشاء نت سے ملنے لاہور مرکز آیا۔ ابھی ٹھیک سے بیٹھا بھی نہ ہوں گا کہ اِن اصحاب نے کہا کہ آئو تمہارے مطلب کے ایک شخص سے ملاقات کرائیں۔ وہ میرے لئے یادگار دِن ثابت ہوا کیوں کہ وہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ نذر حسین خود تھے۔ گو کہ وہ مصروف تھے لیکن میرے شوق اور یہ کہ کراچی سے آیا ہوں، بہت پُرجوش ملے۔ ہم نے 1960 کی دہائی کی کراچی ریڈیو کی باتیں کیں اور یوںدس منٹ بیت گئے، وہ مصروف تھے اور مجھے جانا تھا۔ اِس بات پر نذر صاحب بہت خوش ہوئے کہ ’’کوئی‘‘ اب بھی چاہتا ہے کہ وہ دلوں کو چھیڑتا ساز ’’سرود ‘‘بجا تے رہیں۔ اُن سے دوسری مرتبہ بھی یہیں پی ٹی وی لاہورمرکز میں مسرور بھائی المعروف مسرور انور کے ہمراہ ملاقات ہوئی۔ اُن کے ہمراہ موسیقار مُحسن رضا خان بھی تھے۔ وہاں مسرور بھائی کے کسی گیت کی دھن بنائی جانے والی تھی۔ اب ا توار 21 جنوری کو اطلاع ملی کہ بولتی دھنیں بنانے والا85 سالہ بھر پور زندگی گزار کر دارِفانی سے کوچ کر گیا۔ ہم اُن کی بیگم عارفہ صدیقی اور بیٹی کے غم میں برابر شریک ہیں۔
اُن کی موسیقی کا یہ سفر ریڈیوپاکستا ن حیدرآباد اور کراچی سے ہوتا ہوا لاہورتک آیا۔طرزیں بنانے میں اُن کی ندرتِ خیال تونظر شناس حیدرآباد ہی سے جان گئے تھے، لیکن اِس کی آبیاری کراچی میں ہوئی جہاں اُس وقت کے جید فنکاروں نے اُن کی بنائی ہوئی طرزوں میں گیت و غزل گائیں۔ پاکستان ٹیلی وژن کراچی سے منسلک ہونے سے پہلے میرا ریڈیو پاکستان کراچی میں کافی آنا جانا تھا۔وہاں اکثر بحث ہوتی کہ نذر حسین کی بنائی ہوئی طرزیں ’’ ثقیل ‘‘ ، ’’ٹیڑھی‘‘ اور ’’ بہت مشکل‘‘ ہوتی ہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِن کی اکثر طرزیںسننے میں بے حد لطف دیتی ہیں ، دل چاہتا ہے بار بار سُنا جائے لیکن اُن کو اصل کی مانند گانا کوئی اتنا زیادہ آسان کام نہیں۔ ناقدین کی تنقید اپنی جگہ بجا البتہ خاکسار نے استاد نذر حسین کے گیت و غزل کو سُن کر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اِن کی طرزوں میں ایک دو خصوصی علامات ہوتی ہیں جِن سے فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ اِن کی ہی بنائی ہوئی طرز ہے۔ ایک تو خود طرز کی شیریں نوائی دوسرے ایک مخصوص انگ میں ’’مِینڈھ‘‘ کا استعمال۔ مینڈھ ایک ’ سُر ‘ سے د وسرے ’ سُر ‘ میں پھسلتے ہوئے جانے کو کہتے ہیں۔مینڈھ کا استعمال نذر حسین صاحب دو ’سروں ‘کے درمیان کبھی ایک سبتک Octave میں رہتے ہوئے کبھی دو الگ الگ سبتکوں میں بھی کیاکرتے تھے۔ یہ مینڈھ اُن کی طرزوں میں ہمیں اکثر انترے سے استائی میں جاتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ اب آپ اس عمل کو مشکل کہیں یا ٹیڑھا ، لیکن نذر حسین کا اپنا اور سب سے جدا انداز ہے۔ یو ں تو کئی ایک مثالیں ہیں جیسے داغ کا کلام: ؎
لُطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اُٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
غور سے اِس غزل کو سنا جائے تو خفیف خالی عرصہ ،جو لفظ ’ جی ‘ اور ’ جانتا‘ کے بیچ میں آتا ہے اُسی کا تو سارا لطف ہے۔ آپ یہ اصل غزل مادام نورجہاں کی آواز میں انٹرنیٹ پر سُن سکتے ہیں۔ نذ ر حسین صاحب کا یہ جداگانہ مخصوص انگ ایسے ہی نہیں بن گیا تھا۔یہ اس لئے بھی ممکن ہوا کیوں کہ وہ بیک وقت تین چیزوں پر عبور رکھتے تھے۔اول یہ کہ سرود پر بہت ریاضت کر رکھی تھی۔مینڈھ سرود میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ بقول ناقد ایسی مینڈھ کو خود گا کر ممکن بناتے تھے۔تیسرے یہ کہ وہ خود بہترین گلوکار تھے۔
خاکسار نے موسیقار جوڑی لال محمد اور بلند اقبال المعروف لال محمد اقبال،مہدی ظہیر، نثار بزمی، غلام نبی، زیڈ ایچ فہیم ، کریم شہاب الدین، نیاز احمد ،اختر اللہ دتہ وغیرہ کو طرزیں بناتے ہوئے بہت غور سے دیکھا ہے۔ یہ لوگ گلوکاروں سے جیسا چاہتے تھے اکثر فنکار اُس طرح سے نہیں گا پاتے تھے۔ نذر حسین صاحب چوں کہ خود بہت اچھا گاتے تھے لہٰذا جیسا چاہتے ویسا فنکاروں سے کام لے لیا کرتے تھے۔
ہمارے ہاں ایک طویل عرصہ سے یہ ہوتا چلا آ رہا ہے کہ جب کوئی گیت یا غزل مقبول ہوتی ہے تو شہرت محض گلوکار/گلوکارہ کی ہی ہوتی ہے۔شاعر اور موسیقار کا اِس مقبولیت میں کوئی نام ہی نہیں لیا جاتا، اِس بُری روایت میں ایف ایم ریڈیو کی نشریات بھی شامل ہیں۔ اب تو میڈیا بھی اس میں رنگ دیا گیا ہے۔کسی بھی گیت بنانے میں موسیقار کی طرز اور شاعر کی شاعری گلوکار سے کم اہم نہیں ہوا کرتی۔ افسوس کا مقام ہے کہ اکثریت کو علم ہی نہیں کہ پی ٹی وی لاہور مرکز سے نشر ہونے والے پروگرام ’’ ترنم ‘‘ میں ملکہ ترنم نورجہاں کے لئے بہت سی دھنیں نذر حسین صاحب کی ترتیب دی ہوئی ہیں۔ یہ پروگرام خواجہ نجم الحسن پیش کیا کرتے تھے۔
یوں تو نذر حسین صاحب کے اکثر نغمات لوگوں نے سُن رکھے ہیں ؛وہ الگ بات ہے کہ صرف گلوکارہ ہی کا نام مشہور ہے۔ مثلاََ: ؎
رات پھیلی ہے تیرے سُرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھوندنے پاگل کی طرح
یہ سن کر فوراََ نورجہاں کا نام ذہن میں آتا ہے۔شاعر کلیمؔ عثمانی اور موسیقار نذر حسین کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اِس غزل میں شاعر کا بنایا ہوا ماحول دیکھئے، پھر اِس ماحول کو مزید تاثر انگیز بنانے میں موسیقار کی طرز کو دیکھئے تو باقاعدہ دل مُٹھی میں آنے لگتا ہے۔ انٹرول میوزک میں بانسری کی اُداسی سننے والے پر سحر طاری کرتی ہے۔پہلے انترے: ؎ خشک پتوںکی طرح لوگ اُڑے جاتے ہیں…سے پہلے وائلنوںکے ’ فلیش پیس ‘ سے باقاعدہ خشک پتوں کے اُڑنے کا تاثر ملتا ہے۔پھر اِس مصرعہ کی تکرار کے دوران بانسری کی اُداس ’ بار ‘ ماحول کو اور غمگین بناتی ہے۔
عبید اللہ علیم کی شاعر ی سے کون واقف نہیں، یہ کچھ عرصہ پی ٹی وی کراچی مرکز میں پروڈیوسر بھی رہے۔اِن کی یہ غزل:؎
کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میںپھر خواب اگر ہو جا ئو تو کیا
کوئی رنگ تو دو میرے چہرے کوپھر ذخم اگر مہکائو تو کیا
یہ غزل کئی گلوکاروں نے گائی جِن میں منی بیگم اور غلام علی بھی شامل ہیں لیکن نذر حسین صاحب نے گلوکارہ بلقیس خانم کے لئے جو طرز بنائی وہ …بولتی ہوئی دھن ہے۔طرز میں ہلکے ہلکے جھٹکے شکایت اور ناراضگی کا بھرپوراحساس اُجاگر کرتے ہیں۔تجربہ کرنا شرط ہے،یہ اصل ریکارڈنگ بھی انٹر نیٹ پر سُنی جا سکتی ہے۔
نورجہاں کی آواز میںاُستاد نذر حسین کی چند شاہکار طرزیں یہ ہیں:
ناصر کاظمی
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
جمیل الدین عالی
ذرا بھی چھو لو تواُڑ جائوں کہکشاں کی طرح
پڑا ہوا ہوںمیں کسی تیرِ بے کماں کی طرح
ڈاکٹر خالد
تیری سانسوں کو صبا کہتے ہیں
تیری خوشبو کو حنا کہتے ہیں
جاوید قریشی
وہ میری بزم میں آیا ہو کبھی یاد نہیں
حالِ دل کھل کے سنایا ہوکبھی یاد نہیں
قمر جلالوی
کسی کا نام لو بے نام افسانے بہت سے ہیں
نہ جانے کس کو تم کہتے ہو دیوانے بہت سے ہیں
رضی ترمذی
جب یہ جانِ حزیںوقفِ آلام ہوئی
وہ ساتھ کیسے کیسے بدنام ہوئی
سلیم گیلانی
نگاہِ جور سہی دیکھئے تو کم سے کم
ستم بھی کیجئے لیکن چلا قلم سے کم
حسن میر
ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جائیں
آگ کی طرح جدہر جائیں دہکتے جائیں
اُستاد نذر حسین کی آواز میں مجید امجد کی غزل، سچل اسٹوڈیو میں صدابند کرتے ہوئے کس کو خبر تھی کہ یہ اُن کا الوداعیہ ہو گا:
جو دن کبھی نہیں بیتا وہ دن کب آئے گا
انہی دنوں میں اس اک دن کو کون دیکھے گا
میں روز ادہر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادہر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
ہزار چہرے خود آرا ہیں کون جھانکے گا
مِرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا
لیکن…میرے محترم… اُستاد نذر حسین صاحب! آپ اپنی ذات کے غنی ہیں۔آپ نے اپنی طرزوں میں اپنی زندگی سمو دی ہے…کوئی انہیں کیسے بھلا سکتا ہے…ہم جب بھی آپ کی ترتیب دئیے ہوئے گیت و غزل سُنیں گے …آپ ہمیشہ ہم میں موجود ہوں گے…