عمران خان کی حکومت سے اپوزیشن جس حد تک خوفزدہ ہے اس کا ثبوت اپوزیشن جماعتوں کو متحدہوکر حکومت کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دینے کا اعلان ہے۔ یہ ہمارے سیاستدانوں کی بدقسمتی ہے کہ وہ ایشوز کے بجائے افراد پر سیاست کرتے ہیں اور بڑی سیاسی جماعتوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ ساری کی ساری یہاں تو الا ماشاء اللہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں ’’ون مین شو‘‘ پر انحصار کئے ہوئے ہیں۔ ن لیگ نوازشریف کا نااہل ہونے کے بعد بھی نوازشریف کی قیادت کے بغیر نون سے نون غُناّ بن کر اپنی حیثیت ختم ہونے کے خوف سے ’’ون مین شو‘‘ کے سحر سے نہ نکل سکی اور اسکی پارلیمنٹ میں اکثریت کے بل بوتے پر شاہد خاقان عباسی کو نیا وزیراعظم منتخب کرانے کے باوجود نہ پارلیمنٹرین نے نئے وزیراعظم کو واقعی وزیراعظم سمجھا اور نہ شاہد خاقان عباسی نے خود کو منتخب وزیراعظم سمجھ کر وزیراعظم کے طور پر کام کیا۔ وہ تو چوبیس گھنٹوں میں چوبیس دفعہ روزانہ میرے وزیراعظم اب بھی نوازشریف ہیں کہہ کر اگلے دن کیلئے نوازشریف کی آشیر باد حاصل کرلیتے۔
انہیں اپنی سیاسی بے بصیرتی یا بے ثباتی اور نوازشریف کی اناء پروری کسی ایک کی وجہ سے یا دونوں کی وجہ سے وزیراعظم ہائوس میں گزرے ماہ و سال صرف ماہ اسلئے یاد نہیں آئینگے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چند دن وزیراعظم رہنے والوں نے بھی شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں زیادہ مزا کیا۔ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے تو اسکے مقابلے میں بہت ہی وقار سے وزارت عظمیٰ کا دورانیہ پورا کیا۔ اپنی لیڈر شپ سے وفاداری کے باوجود اٹھتے بیٹھتے اپنی قیادت کے مرہون منت ہونے کا ہر گز تاثر نہ دیا۔ یوسف رضا گیلانی کو بھی پہلے نوے دن کے لئے اعلانیہ ٹرائل پر رکھا گیا۔
پیپلز پارٹی کے کوچیئرمین آصف زرداری نے کہا تھا کہ تین ماہ کی کارکردگی دیکھ کر فیصلہ کرینگے کہ گیلانی کو وزیراعظم رہنے دینا ہے یا کوئی دوسرا بندہ ٹرائی کرنا ہے۔ وہ بھی پوری پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیکر وزیراعظم کے منصب کی لاج رکھتے ہوئے غیر ضروری طور پر پارٹی کی قیادت کے احسانات کا ذکر نہ کرتے تھے۔ اسکے باوجود پیپلزپارٹی بھی ’’ون مین شو‘‘ کا ہی نام ہے۔
اگرچہ یہ شو ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا انکی پھانسی کے بعد انکی بیوی نصرت بھٹو اور پھر بے نظیر بھٹو نے اس ون مین شو کو ’’ون ویمن شو‘‘ کے طور پر آگے بڑھایا۔ بے نظیر کے قتل کے بعد آصف زرداری نے بی بی کے نام کی مالا جپتے اسے پھر ون مین شو بنا دیا۔ بلاول کے پر پُرزے نکالنے سے پہلے ہی اسے پارٹی کا نمائشی چیئرمین بنا دیا، بات زرداری کی ہی چلتی ہے۔
شہبازشریف کو ن لیگ کا نمائشی صدر بنا دیا گیا مگر وہ نوازشریف کی مرضی کے خلاف اوراپنی مرضی سے کوئی فیصلہ نہیں کرتے یا نہیں کرسکتے۔ مریم نواز کی سیاست میں انٹری سے پہلے ہی اسے سزا ہوگئی وہ بھی ون مین شو کی ایکسٹینشن ہی قرار پائے گی۔
الطاف حسین کی متحدہ سے علیحدگی کے بعد یا اسکے بے اثر ہونے کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی سیاسی حیثیت تو اسی دن سامنے آگئی تھی جس دن انکی جمات میں ان کے خلاف علم بغاوت بلند ہوا اور وہ متحدہ کے کسی یونٹ سربراہ کے اختیارات سے بھی محروم ہوگئے۔
ولی خاں کی جماعت کو اگرچہ بیگم نسیم ولی خان نے اپنے شوہر کی زندگی میں ہی سیاست میں متحرک ہو کر متبادل قیادت فراہم کرنے کی کوشش کی اور بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک میں بیگم نسیم ولی خاں قومی سطح کے لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں مگر انکے ہونہار اور فرمانبردار بیٹے اسفند یار ولی کی ’’غیرت‘‘ نے گوارا نہ کیا کہ انکی اماں پارٹی کی قیادت سنبھالے۔ اس نے بے نظیر بھٹو کو اپنی اماں کو پارٹی سے عملاً بے دخل کرکے خود قیادت سنبھالنے کا ایک ایسا کامیاب تجریہ کرتے دیکھا تھا جو اپنی جماعت پر آزمایااور کامیاب رہا۔ بیگم نسیم ولی خاں انکی جماعت سے بیٹے کے ہاتھوں بے دخل ہوگئی۔ مفتی محمود کی جمعیت علماء اسلام انکے بیٹے مولانا فضل الرحمن نے سنبھال لی اور وہ اپنے علاوہ کسی کو اپنی جماعت کی امارت کا حقدارنہیں سمجھتے۔
عمران خان بھی اس ’’ون مین شو‘‘ سے باہر نہیں نکل سکے اپنے علاوہ کرکٹ میں اگروسیم اکرم پسند تھا تو سیاست میں عثمان بزدار اور وہ اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ انہیں وسیم اکرم بنا دینگے۔ عثمان بزدار کو پنجاب کی تاریخ کا سب سے کمزور بے حیثیت وزیراعلیٰ کہنے والے اپنے مؤقف کو سچا ثابت کرنے کیلئے کہتے ہیں کہ اس میں بزدار کا قصور نہیں اسکی اہلیت اور صلاحیت سے یہ منصب بہت بلند ہے۔
پنجاب میں آ جا کے نگاہ انتخاب چودھری پرویز الہٰی پر جاتی ہے جنہوں نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طور پانچ سال اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ اس انتخاب میں عمران کے آڑے صرف ان کا تحریک انصاف کا رکن نہ ہونا آتا ہے حالانکہ ون مین شو کی برکات سے اور چودھری پرویز الٰہی کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب کارکردگی اور بطور سپیکر پنجاب اسمبلی غیر جانبدارانہ کردار انکے انتخاب پر کسی کو انکی جماعت میں انگلی اٹھانے کا موقع نہیں دے گا۔
چودھری پرویز الٰہی اس وقت انکے اتحادی ہیں وہ جمہوری اور پارلیمانی فیصلے کرنے میں اپنوں اور غیروں کی تفریق نہیں کرتے وگرنہ کسی قیدی کے لئے پروڈکشن آرڈر کا قانون صرف پنجاب اسمبلی میں نہ ہونے سے انکی صحت پر کیا اثر پڑتا تھا جب کہ قواعد و ضوابط میں اس تبدیلی کا فائدہ بھی ن لیگ کو ہی ہونا تھا اور ان قواعد و ضوابط میں تبدیلی کے بعد خواجہ سلمان رفیق کو پروڈکشن آرڈر پر اسمبلی اجلاس میں شرکت کی اجازت ملی۔ ساہیوال جیسے حساس واقعہ کی صوبائی اسمبلی میں ’’ان کیمرہ بریفنگ‘‘ کا واقعہ پنچاب اسمبلی کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی ان کیمرہ بریفنگ ہے جس کا کریڈٹ سپیکر اسمبلی کو ہی جاتا ہے۔ ان کی جماعت کی قیادت اگرچہ چودھری شجاعت حسین کی پالیسی ہے اور چودھری پرویزالٰہی انکے ہمدم دیرینہ ہیں مگر یہاں ون مین شو نہیں، بات مشاورت سے کرتے ہیں۔ چودھری مونس الٰہی ایم این اے بھی مشاورت میں شامل ہوتے ہیں۔
جماعت اسلامی کا انداز اور طریق اسے ون مین شو سے دور رکھے ہوئے ہے۔ قاضی حسین احمد کی امارت کے دوران انکی صاحبزادی کا سیاست میں نمایاں ہونا محض وقتی طور پر تنقید کا نشانہ بنا ۔مقصد عمران خان کو یہ سمجھانا ہے کہ اگر نواز اور زرداری، الطاف حسین، اسفند یار ولی یا مولانا فضل الرحمن کا ون مین شو سیاست میں فلاپ ہو گیا ہے تو ان کا یہ شو بھی نہیں چلے گا۔ ان کی جماعت میں قحط الرجال ہے تو اپنے حامیوں کو اہم ذمہ داری دیں تاکہ وہ انکے سیاسی بوجھ کو کم کر سکیں اور یہ بھی یاد رکھیں کرکٹ سال میں چند دن کھیلی جاتی ہے، تگڑی ٹیم کے بعد کمزور ٹیم سے میچ ہو جاتا ہے۔سیاست چوبیس گھنٹے کا کھیل ہے اس لئے جسے آپ وسیم اکرم بنانا چاہتے ہیں وہ ہانپ رہا ہے منزل دور اور راستہ دشوار اور سیاسی گرو اس بات پر تو اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان میں سیاست کی کامیابی کے لئے پنجاب پر حکومتی گرفت کا مضبوط ہونا اولین شرط ہے۔ اس صوبے میں آپ مار کھا رہے اسکے باوجود آپ کی کمزور حکومت کو جسے اپوزیشن والے کمزور کہتے ہیں اور آپ کے اپنے بھی اسے کمزور سمجھتے ہیں وجہ اسکی کچھ بھی ہے اس کو زیر بحث لائے بغیر یہ کہنا پڑے گا کہ ابھی وقت ہے آپ کی کمزور حکومت سے اپوزیشن اتنا گھبرائی ہے کہ شہباز اور زرداری گلے مل کر آہ و زاری کر رہے ہیں یاکہیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینگے۔
اپوزیشن کا خوف
Jan 30, 2019