اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین مذہب کیس میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف دائر نظرثانی اپیل خارج کرتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے لارجر بینچ بناکر اس میں اسلامی سکالرز اور علما کرام کو شامل کرنے کی استدعا بھی مسترد کردی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے آسیہ بی بی کی بریت کا اپنا31اکتوبر 2018کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ مذہب کا معاملہ کیسے ہوا کیا فیصلہ میرٹ پر نہیں ہوا، فیصلہ شہادتوں پر ہوا ہے، کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ جرم ثابت نہ ہو پھر بھی سزا دے دیں۔ درخواست گزار کے وکیل عدالتی فیصلے میں کوئی قانونی سقم ثابت نہیں کرسکے ، مقدمے کے گواہان قرآن مجید پر حلف اور اللہ کو حاضر ناظر جان کر ایک دوسرے کو جھوٹا ثابت کرتے رہے ،اگر معاملہ حساس نہ ہوتا تو گواہوں کو جھوٹی گواہی دینے پر عمر قید دے کر فوری جیل بھیجوا دیتے۔ منگل کوچیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف قاری عبدالسلام کی جانب سے دائر نظرثانی درخواست پر سماعت کی تو درخواست گزار کے وکیل غلام مصطفیٰ نے عدالت سے آسیہ بی بی کی بریت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بتائیں فیصلے میں کیا غلطی ہے؟ اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا کہ بار ثبوت مدعی پر ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ اس اصول سے اختلاف کرتے ہیں۔ قاری سلام کے وکیل نے کہا کہ فیصلے میں سپریم کورٹ کے کچھ نظائر کو نظر انداز کیا گیا، اگر کسی بیان پر جرح نہ کی گئی ہو تو اسی بیان کو درست سمجھا جاتا ہے، یہ لارجر بینچ کا فیصلہ ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی وکیل ملزم سے سوال پوچھنا بھول جائے تو اسے پھانسی لگا دیں؟ آپ میرٹ پر بات کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اقلیتوں کا خیال رکھو، اسلامی معاشرے کی خوبصورتی یہ ہے کہ اقلیتوں کا خیال رکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے میرٹ پر بات کریں کہ غلطی کہاں ہے، پہلے یہ بتائیں کہ کہاں گواہوں کے بیانات کو ٹھیک نہیں پڑھا گیا، اس کے بعد وہ سب باتیں آئیں گی کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اسلام کہتا ہے کہ سچی گواہی دو چاہے اپنے عزیز و اقارب کے خلاف بھی ہو، اگر ہم نے شہادت ٹھیک نہیں پڑھیں تو فوراً درست کریں گے۔ اس پر وکیل قاری سلام کا کہنا تھا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ خواتین گواہان نے کہا کہ انہیں نہیں پتہ آسیہ کس سے بات کر رہی تھی۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ فیصلے میں بھی تو یہی لکھا ہے، آپ کہتے ہیں کہ آسیہ بی بی 25 لوگوں کو مخاطب کرکے کہہ رہی تھی، کیا وہ کسی جلسے سے خطاب کر رہی تھی۔ تفتیشی افسر کے سامنے خواتین گواہان نے کہا کہ ان کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس کیس میں اتنے سچے گواہ نہیں تھے جتنے ہونے چاہئیں تھے جبکہ تفتیشی افسر کہتا ہے کہ خواتین گواہان نے بیان بدلے۔ تفتیشی افسر اور گواہان کے بیان میں فرق ہے، اس کے علاوہ فالسہ کے کھیت کا مالک عدالت میں بیان کے لیے آیا ہی نہیں۔ قانون کہتا ہے کہ 342 کا بیان ریکارڈ نہیں کرایا تو بیان کی کوئی حیثیت نہیں۔ دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دئیے کہ ایس پی نے جب تفتیش شروع کی تو تب فالسے کے کھیت کا مالک آیا، تفتیش کے 20 روز بعد یہ میدان میں آیا، اس کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مدعی قاری سلام نے اپنے بیانات بدلے، وہ کہتے ہیں کہ افضل نے انہیں اطلاع دی جبکہ افضل حلف اٹھا کر کہتا ہے کہ یہ اس کے گھر آئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ فوجداری قانون میں ایک گھنٹے کی تاخیر سے شکوک و شبہات شروع ہوجاتے ہیں۔ اس پر وکیل قاری سلام نے کہا کہ مدعیوں کی جانب سے آسیہ کو کسی بدنیتی کی وجہ سے ملوث نہیں کیا گیا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جن خواتین نے ابتدائی الزام لگایا وہ قاری صاحب کی بیگم سے قرآن پرھتی ہیں، قاری صاحب ایف آئی آر درج کروانے کے لیے 5 دن کیوں سوچتے رہے، 5 دن میں قاری صاحب نے ایک وکیل سے درخواست لکھوائی جبکہ قاری صاحب کہتے ہیں کہ وہ وکیل کو نہیں جانتے۔چیف جسٹس نے قاری سلام کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ کہیں وہ وکیل آپ ہی تو نہیں تھے۔ قاری سلام کے بیان کے مطابق گاؤں والے اکٹھے ہوئے پھر ایف آئی آر درج ہوئی جبکہ گواہوں کے بیانات میں کہیں مجمع اکٹھا ہونے کا ذکر نہیں۔ مجمع اکٹھا ہونے کے بارے میں بہت زیادہ جھوٹ بولا گیا۔ بیان میں کہاگیا کہ جس گھر میں پنچایت ہوئی وہ 5مرلے کا تھا ،پانچ مرلے کے گھر میں کہا گیا کہ دو ہزار بندے تھے، 5 مرلے کے گھر میں تو دو ہزار اینٹیں بھی نہیں لگ سکتیں۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر عام مقدمہ ہوتا تو گواہان کے خلاف مقدمہ درج کرواتے، ہم نے بہت زیادہ تحمل سے کام لیا، آپ کہتے ہیں قابل اعتبار گواہ تھے ان کے بیانات پر پھانسی لگا دینی چاہیے، اب گواہوں کے بیانات کی حیثیت بھی تو دیکھیںجو اللہ کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھا کر ایک دوسرے کو جھوٹا ثابت کرتے رہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جھوٹی شہادت پر کہتے ہیں کہ پھانسی لگادیں کسی کو۔ اس پر وکیل قاری سلام نے کہا کہ بیانات میں تھوڑا فرق ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فرق؟ یہ جھوٹ ہے، قاری سلام نے حلف پر جو بیان دیا وہ پہلے بیان سے مختلف تھا۔ ایسا مدعی ہے جس کو یہ نہیں پتہ کہ اس کی درخواست کس نے لکھی۔ قاری صاحب کو تو براہ راست بچیوں نے نہیں بتایا ہوگا، پھر ان کو کیسے پتہ چلا کہ یہ الفاظ کہے گئے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ کیا دنیا کے سامنے اسلام کی یہ تصویر پیش کر رہے ہیں، اس طرح کے گواہ ہوتے ہیں، سب گواہان کے بیانات میں واضح تضاد ہے اور آپ سارا پاکستان بلاک کردیتے ہیں کہ ہماری بات کیوں نہیں مانی گئی۔ ہم نے انصاف کیا تو کہا گیا کہ یہ واجب القتل ہیں ،فتوے دئیے گئے ، اپنے گریبان میں بھی تو جھانکیں کیس کیا بنایا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمے کی حساسیت کا خیال کیا ورنہ جھوٹی گواہی پر گواہوں کو اندر کرتے، اگر انصاف کردیا تو واجب القتل ہوگئے؟ یہ ہے اسلام جو قاضی کہے کہ یہ شہادت قابل اعتبار نہیں تو اس قاضی کا فیصلہ آپ کو منظور نہیں، کیوں کہ فیصلہ آپ کی مرضی کا نہیں۔ اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ بتائیں فیصلے میں کیا غلطی ہے؟ ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم کیس کی دوبارہ سماعت نہیں کر رہے، ان کی تسلی کے لیے سن رہے ہیں جنہوں نے بغیر پڑھے فتوے جاری کیے۔ چیف جسٹس نے قاری سلام کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ فیصلے میں ایک بھی غلطی نہیں بتاسکے، آپ کو فیصلے میں عام باتوں پر اعتراض ہے فیصلے پر نہیں۔ یہ بتائیے جھوٹے گواہان کے خلاف کیا کرنا چاہیے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ قانون کے مطابق سمری ٹرائل کے ذریعے عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے، ایسے کیس میں جھوٹی گواہی دی جس میں سزائے موت ہو سکتی ہے جبکہ سزائے موت ہوئی بھی ہے۔ عدالت نے آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف اپیل میرٹ پر نہ ہونے کے باعث خارج کردی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے توہین مذہب کیس میں مسیح خاتون آسیہ بی بی کو 31اکتوبر 2018ء کو بری کردیا تھا جس کے خلاف مدعی مقدمہ قاری سلام نے نظر ثانی اپیل دائر کی تھی۔