ٹرمپ صاحب! آپ ضرور آئیے، لیکن…

ٹرمپ کا دورۂ پاکستان شیڈول ہے۔ یہ بات پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک میڈیا بیان میں کہی۔ جبکہ امریکی دفتر خارجہ نے بھی واشنگٹن سے اس دورے کی تصدیق کر دی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان آتے ہیں تو یہ ایک بڑی بات ہو گی۔ خطے کی موجودہ صورت حال اور اِس صورت حال کے تناظر میں امریکی صدر کا دورۂ پاکستان خصوصی اہمیت کا حامل ہو گا۔ ناقدین اور مبصرین اس دورے کو خاص اہمیت دے رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ایک سپر طاقت کے صدر کا دورۂ پاکستان، پاکستان کے لیے دفاعی اور معاشی اعتبار سے بڑا فائدے مند ثابت ہو گا۔ جغرافیائی حوالے سے ہم جن مسائل سے دوچار ہیں۔ افغانستان کے اندرونی حالات اور بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت ہمارے دیرینہ متنازعہ مسائل جس طرح بے قابو ہوتے جا رہے ہیں، ایسے میں ایک سپر طاقت کے صدر کی پاکستان میں آمد جہاں دنیا بھر کے لیے بہت سے اچھے پیغامات کا باعث بنے گی، وہاں بھارت کو بھی کڑا پیغام جائے گا کہ پاکستان دنیا میں اکیلا نہیں، وہ ایٹمی قوت ضرور ہے لیکن ساتھ ساتھ اُسے دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت کی ہر طرح سے تائید و حمایت بھی حاصل ہے۔پچھلے دنوں ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جہاں دنیا بھر کے کئی بڑے لیڈروں سے ملاقات کی ، وہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ہونے والی اُن کی ملاقات دنیا کے لیے یہ پیغام چھوڑ گئی کہ ملک کی قیادت بہترین لیڈرشپ کے پاس ہو تو ہر حال میں اُس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈیووس میں عمران خان سے ون ٹو ون ایک گھنٹہ ملاقات رہی۔ ٹرمپ جب میڈیا کے سامنے آئے تو برملا کہا کہ عمران خان اُن کے ’’ذاتی دوست‘‘ ہیں۔ اس سے پہلے کسی امریکی صدر نے کسی پاکستانی لیڈر کے لیے ’’ٖپرسنل دوست‘‘ جیسے الفاظ استعمال نہیں کئے تھے۔ ٹرمپ کی زبان سے نکلے ہوئے یہ وہ الفاظ ہیں جس نے پورے ہندوستان میں صفِ ماتم بچھا دی۔اگرچہ سرکاری سطح پر بھارتی حکومت کا امریکی صدر کی جانب سے ان الفاظ کی ادائیگی پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم انڈین میڈیا نے اس کا بہت بُرا منایا ہے۔ انڈین میڈیا ’’ذاتی دوست‘‘ جیسے الفاظ ادا کرنے پر امریکی صدر کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن اس پر تبصرے کر کے اپنے دل کی بھڑاس ضرور نکال رہا ہے۔امریکی صدر پاکستان کب تشریف لا تے ہیں۔ مہینے اور تاریخ کا اعلان تو باضابطہ طور پر سامنے نہیں آیا لیکن شاہ محمود قریشی اور امریکی دفتر خارجہ کی تصدیق ظاہر کرتی ہے کہ پاکستانی وزیراعظم نے امریکی صدر کو دورۂ پاکستان کی جو دعوت دی ،وہ قبول کر لی گئی ہے۔ امریکی صدر پاکستان آتے ہیں تو اپنے ساتھ کیا کچھ لاتے ہیں ، دیکھنے کی بات اب یہی ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ کیا اُنکے دورے سے ’’سی پیک‘‘ پر تو کوئی منفی اثرات نہیں پڑینگے کیونکہ ہفتہ پہلے ایک امریکی حکومتی ترجمان نے ’’سی پیک‘‘ پر بہت سے سوال اٹھا دئیے ہیں۔ اس خاتون ترجمان کا کہنا تھا کہ چین نے سی پیک کی تکمیل کے لیے پاکستان کو جو قرصے فراہم کئے ہیں اُن کی شرح سود یا شرح منافع بہت زیادہ ہے۔ اس کے ذریعے پاکستان پر قرضوں کا اس قدر بوجھ بڑھ گیا ہے کہ شاید وہ کبھی ان قرضوں کے بوجھ کے نیچے سے نہ نکل سکے۔حکومت پاکستان نے اگراچہ امریکی ترجمان کے اس سرکاری بیان پر اب تک اپنا کوئی ردعمل نہیں دیا، نہ ہی پاکستانی میڈیا نے اس سوال کے مضمرات کو اپنے میڈیا شوز کا حصّہ بنایا ہے۔ لیکن ہمیں تشویش ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں، امریکی صدر اپنے اس دورے کی آڑ میں چین اور پاکستان کے مابین شروع ہونیوالے اقتصادی راہداری کے اس بڑے منصوبے کو رکوانے کی سعی کریں۔ایسا ہے تو یہ ہمارے لیے، ہماری معیشت کیلئے انتہائی تشویش اور خطرے کی بات ہو گی۔ پاکستانی قیادت کو ابھی سے اس حوالے سے اپنا کوئی ٹھوس مؤقف اور لائحہ عمل تیار کر لینا چاہیے۔ اس ضمن میں اپوزیشن جماعتوں سے صلاح مشورہ وقت کی اہم ضرورت ہو گی۔ ایک بات تو طے کر لینی چاہیے کہ امریکہ کچھ بھی کہے، کتنی ہی امداد اور مراعات کیوں نہ دے، چاہے تجارت کے کتنے ہی راستے کیوں نہ کھول دے، ہمیں کسی حال، کسی بھی صورت سی پیک کو رول بیک نہیں کرنا چاہیے۔ امریکی صدر کے ساتھ ہماری بات چیت کا کلیدی ایجنڈا یہی ہونا چاہیے کہ سی پیک کے حوالے سے ہم اُنکی کوئی بھی بات ماننے کو تیار نہیں۔ دورے سے قبل ہی امریکہ پر واضح کر دینا چاہیے کہ ہم آپکی آمد کے ضرور منتظر ہیں، آپ پاکستان آئیے، ہم دل و جان سے آپ کا خیر مقدم کریں گے لیکن اپنے مفادات خصوصاً سی پیک پر کوئی بھی ’’سمجھوتہ‘‘ کرنے کو تیار نہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...