سرگودھا سے پروفیسر ڈاکٹر اقبال نابینا نے اپنے انشائیوں کے مجموعے ’’اوٹ پٹانگ‘‘ بھجوا کر ہدایت کی کہ خود جا کر یہ ڈاکٹر اجمل نیازی کی خدمت میں پیش کریں اور میری طرف سے عیادت بھی۔‘‘ جس دن اجمل نیازی اپنے گھر کے صحن میں پھسلے، اُسی رات سرگودھا کے نابینا مرکز کا ایک طالب علم SLIP ہو کر اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھا۔ اُسے فوراً جھال چکیاں لے جایا گیا، جہاں نہر کے کنارے بیٹھے پہلوان جراح نے اس کی مرہم پٹی صرف 500/- روپے میں کر دی، کل وہ بھی سرگودھا سے آ کر مجھے کتب دے گیا۔ آج صبح 11 بجے جب میں ڈاکٹر اجمل کی رہائش گاہ وحدت کالونی پہنچا تو پتہ چلا کہ علالت کیا ہے؟وہ بستر پر لیٹے تھے، بغیر وا کر کے چل نہیں سکتے، بہت ہی دقت سے، بہت مدھم سی آواز میں بول رہے تھے۔…؎
صحافت میں مقام ان کا ہے اعلیٰ
قلم کا ان کو سب کہتے ہیں غازی
خدا ان کو شفا دے جلد شاہد!
بہت بیمار ہیں اجمل نیازی
لیکن اتنے بے بس و لاچار بھی نہیں جتنے ایک WHATS APP گروپ میں دکھائی دئیے، جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ان کا علاج وغیرہ کروائے۔ ایسی تصویر اور اپیل پر اُنکے گھر والے کبیدہ خاطر تھے۔ احباب سے التماس ہے کہ ایسے بیانات اور تصاویر وائرل کرنے سے اجتناب کریں۔
1970ء کل کی بات لگتی ہے ، جب میں نے LL.B کیا ، پڑھتا لاء کالج میں تھا، رہتا وولنر ہوسٹل میں تھا۔ اوپر ساتھ والے کمرے میں اجمل نیازی رہتے تھے۔اجمل نیازی سے مل کر زمانہ طالب علمی کی رنگا رنگ بزم آرائیاں یاد آ جاتی ہیں۔ کیا زمانہ تھا۔ لاء کالج کے اعجاز بٹالوی، اورینٹل کالج اور G.C کے اس زمانے کے عظیم اساتذہ کی فیض رساں صحبتیں، مباحثے، لاء موٹس ، ڈرامے، مشاعرے اور پھر انار کلی اور مال روڈ کا نشاط انگیز ماحول، ایک حسین خواب ہے۔ ان درس گاہوں سے بڑے بڑے قدآور لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے قومی اور عالمی سطح پر گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔
ان میں سے جن لوگوں نے قلم اور کتاب سے رشتہ جوڑے رکھا، وہ پیرانہ سالی کے باوجود اپنی تخلیقات اور ادبی سرگرمیوں میں شمولیت کی وجہ سے آج بھی مفید خدمات سے مستفید فرما رہے ہیں۔ ایک سال وولنر ہوسٹل میں قیام کی وجہ سے 1972ء میں ایم ۔ اے کر سکا اور معاونِ ’’ادبِ لطیف‘‘ ہو سکا، جس کی بدولت کتب و رسائل کا بڑا ذخیرہ میرے پاس موجود ہے جو اس خالی چیمبر میں منتقل ہونے کا منتظر ہے جس کو P.H.A ، D.G برائے لائبریری -10 اپریل 1918ء کو مختص کر چکے ہیں اور اس بابت اقبال راہی نے کیا خوب کہا ہے؎
چارہ سازوں کی اٹھے گی ان کی جانب کب نظر؟
سرفرازی پائیں گے کب تک ثنا خوانِ کتب
ہو گا P.H.A کی لائبریری کا کب افتتاح
اہلِ دانش اپنی منزل کی طرف پہنچیں گے کب؟
ڈاکٹر اجمل نیازی ماشاء اللہ ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں جو زمانۂِ طالب علمی سے لے کر آج تک ایک وسیع حلقہِ احباب رکھتے ہیں۔ ان کو سننے کے لیے لوگ بے تاب رہتے ہیں، آج انہیں چپ چاپ دیکھ کر دکھ ہوا۔ ؎
قلم ان کی تلوار، عِلم ان کی طاقت
ادب کے شناور ، صحافت کے غازی
خدا ان کو شاہد! رکھے سلامت
سراپا محبت ہیں اجمل نیازی
برسوں اردو زبان و ادب کے استاد رہنے کے ساتھ ساتھ اجمل نیازی ایک صاحبِ طرز کالم نگار بھی ہیں۔ سادگی و صاف گوئی سے بات سے بات نکالتے ہوئے بین السطور بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ نوائے وقت جیسے سنجیدہ اخبار کے فکر و نظر سے بشرطِ استواری وفادار ہیں۔ ان کی علالت کی وجہ سے قارئین نوائے وقت، ان کے قابل مطالعہ کالموں سے ان دنوں محروم ہیں مگر اپنے عزیزوں، دوستوں اور شاگردوں کی دعائوں سے ان شاء اللہ جلد صحت یاب ہو جائیں گے اور علم و ادب کے سینہ چاکانِ چمن سے آ ملیں گے۔ اقبال راہی کہتے ہیں؟
جو آج نمایاں ہے اُسی ظلم کے آگے
اک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے اجمل
اللہ انہیں صحتِ کامل سے نوازے
احساس کا ادراک کا مینار ہے اجمل
٭…٭…٭
ساری دنیا کے مریضوں کو شفا دے یا رب
Jan 30, 2020