اسلام آباد (نیوز رپورٹر + آن لائن) وزیر داخلہ سے برٹش ایئر ویز کے چار رکنی وفد نے ملاقات کی۔ صدارت ڈپٹی برٹش ہائی کمشنر کرائوڈر رچرڈ کر رہے تھے۔ ملاقات کا بنیادی مقصد وزیر داخلہ اعجاز احمد شاہ کا سیکورٹی انتظامات کو یقینی بنانے پر شکریہ ادا کرنا تھا۔ وفد نے وزیر داخلہ کو آگا کیا کہ ہمارے تمام فلائنگ آپریشنز بغیر کسی مشکل کے چل رہے ہیں، سیکورٹی کے انتظامات تسلی بخش ہیں جس پر وزارت داخلہ کے اقدامات اور تعاون کے شکر گزار ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ خوشی ہے کہ ہماری کوششیں رنگ لائی ہیں، چاہتے ہیں کہ عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت تاثر جائے۔ انہوں نے کہا کہ ویزا سہولیات سے لے کر امیگریشن کاونٹرز تک، ہم نے تمام سہولیات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ وزیر داخلہ نے امید ظاہر کی کہ ہفتے میں 3 سے زیادہ پروازوں اور دیگر شہروں تک رسائی بھی وقت کے ساتھ ممکن بنائی جائے گی۔ وفد نے وزیر داخلہ کو بتایا کہ گزشتہ 7 ماہ میں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہیں ہوا، امید ہے کہ آنے والے وقت میں بھی تعاون برقرار رہے گا۔ واضح رہے کہ برٹش ایئر ویز نے جون 2019 میں پاکستان میں پروازوں کا دوبارہ آغاز کیا تھا۔ اس سے قبل 2008 سے پروازوں کا سلسلہ بند تھا۔ وزیر داخلہ اعجاز احمد شاہ نے بھی برٹش ایئر ویز کو مبارکباد پیش کی۔ انٹرویو میں اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ سے مذاکرات اپنی جگہ لیکن اگر کوئی ملک کا قانون توڑے گا تو انھیں گرفتار کیا جائے گا۔برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وہ پاکستانی شہری ہیں انھوں نے ملک کا قانون توڑا ہے۔ اسی لیے ان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جہاں تک پختونوں کی بات ہے، پختون اس حکومت کے ساتھ ہیں۔ مذاکرات کی بات پر وفاقی وزیر برائے داخلہ نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کا موقف ہے کہ اگر آپ کسی چیز کا حل چاہتے ہیں تو ٹیبل پر آئیں۔ جنگ سے، لڑائی سے کوئی چیز حل نہیں ہوتی۔ اور یہ ملک کے لیے، قبائل کے لیے اور برادری کے لیے اچھا ہے۔پاکستان کے پختونوں کی بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جہاں تک بات ہے پختونوں کی۔ تو ہماری جماعت کی دو تہائی اکثریت ہے۔ عمران خان پختونوں اور قبائلی علاقوں میں اپنے ضلعے سے زیادہ مشہور ہیں۔ جو انھوں نے سابق قبائلی علاقوں کے انضمام اور پختونوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے بارے میں کیا ہے وہ کسی اور سیاسی رہنما نے نہیں کیا۔ تو رہنما کون ہوا پشتین یا عمران خان؟لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ اب تک پی ٹی ایم پرامن طریقے سے ملک بھر میں احتجاج کرتی آئی ہے۔ تو جب ان سے مذاکرات کی باتیں ہو ہی رہی ہیں تو ان سے ٹیبل پر بات کیوں نہیں کی جاتی؟ اس پر اعجاز شاہ نے کہا ٹیبل پر بھی بات ہو رہی ہے۔ آپ جا کر ایک آدمی کا قتل کر آئیں یا کوئی جرم کرلیں۔ تو اس کا کیا مطلب ہوا کہ آپ مجھ سے بات کر رہے ہیں، تو میں آپ کو پکڑوں ہی نہیں؟ قانون ساز اداروں کو اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ جو بات کرنے والے ہیں وہ کر رہے ہیں۔ اگر وہ غلط کام کریں گے تو پکڑے جائیں گے۔ اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا خدانخواستہ کہ انھوں نے کسی کا قتل کیا ہے۔ میں مثال دے رہا ہوں۔ ان کے خلاف ڈیرہ اسماعیل خان میں مقدمہ درج ہوا ہے جس کے بعد ان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ کل پرسوں جو ان کے دوسرے رکنِ قومی اسمبلی ہیں، وہ بہت اچھے انسان ہیں، وہ ملک اور اداروں کے خلاف غلط الفاظ استعمال کررہے تھے۔ اور ان کو پکڑ لیا گیا، یہ کل کی بات ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ احتجاج کرنے کا مہذب طریقہ بھی ہے۔ لیکن یہ طریقہ غلط ہے۔ وہ غلط طریقے سے احتجاج کر رہے تھے۔ عدالتیں آزاد ہیں، عدالتیں مقدمے کا فیصلہ کریں گی۔