یادیں زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں، زندگی کے گزرتے ہوئے خوبصورت لمحات وقت کی رفتار میں ماضی کاحصہ بن جاتے ہیں لیکن دِل و دماغ سے اِن کاتعلق کبھی ختم نہیں ہوتا۔خوبصورت یادیں اپنی گرفت سے آزاد نہیں ہوتے دیتیں۔میرے ہاتھ میں نہایت دلکش سرورق اور بہترین طباعت والی کتاب "یادیں" ہے جسے چوہدری شفاعت احمدنے تحریر کیا ہے ، چوہدری شفاعت احمد1939ء میں لاہور میں پیدا ہوئے، لاہور ہی سے تعلیم مکمل کرلینے کے بعد مختلف سرکاری محکموں میں پولیس پراسیکیوٹر، سٹی مجسٹریٹ، مجسٹریٹ شریعت کورٹ، ٹریفک مجسٹریٹ، سیکرٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارتی کے علاوہ پنجاب کے متعدد اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔یوں انہوں نے بھرپورپیشہ وارانہ زندگی گزاری اور زندگی کے ہر پہلو کو قریب سے دیکھنے، جانچنے اور پرکھنے کا موقع حاصل کرتے رہے، صاف ظاہر ہے کہ وہ بڑاتجربہ اور مشاہدہ رکھتے ہیں۔ چوہدری شفاعت نے ’’یادیں‘‘ میں نہایت دلچسپ واقعات تحریر کئے ہیں۔کتاب کھولتے ہی جو سادہ اور خوبصورت الفاظ پر نظر پڑتی ہے کہ یہ کیسی ہیرو کی داستان نہیں ہیبلکہ ایک عام آدمی کی کہانی ہے جسے آپ سچ کی نامکمل دستاویز بھی کہہ سکتے ہیں۔لکھتے ہیں’’گوجرانوالہ کی تعیناتی کے دوران میں کچہری میں بیٹھا تھا دوپہر کا وقت تھا کہ پولیس کا ایک اے ایس آئی گھبرایا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ اْس کے تھانہ کی حدودمیں ریوالور سے مسلح ایک نوعمر شخص اپنے گھر کے کمرے میں موجود ہے اور اس کامطالبہ ہے کہ اْسے فوری طور پر کسی مجسٹریٹ یا اے سی سے ملایا جائے بصورت دیگر وہ کسی کو مار دے گایا خود مرجائے گا، میں کچھ سوچ کر اْس کے ساتھ موقع پر پہنچا تو وہ مکان میرے خیال میں گوجرانوالہ کے ہسپتا ل کے نزدیک ایک محلہ میں تھا وہ لڑکا گھر کی دوسری منزل پر ایک کمرہ میں تھا اور کھلی کھڑکی سے نظر آرہا تھا، وہاں پہنچ کر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ مجھے ایسے ہی نہیں آ جانا چاہئے تھا، وہ آدمی کچھ بھی کرسکتا تھا، خیر اب تو حوصلہ کرنا تھا میں بہرطور اس کے سامنے نہیں گیا مگر بلند آواز میں اپنا تعارف کروایا اور اس کا مسئلہ پوچھا اْس نے پندرہ بیس منٹ میں اپنے دل کا غبار نکال لیا اور میرے سمجھانے پر ریوالور بھی کھڑکی سے باہر پھینک دیا اور اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا وہ دس پندرہ منٹ بڑے خطرناک تھے جب ریوالور کو چیک کیا گیا تووہ پوری طرح لوڈڈ تھا‘‘یہ کتاب اس طرح کے نہایت دلچسپ واقعات سے بھری ہوئی ہے، ہر واقعہ اور اْس کا اندازِ بیان اتنا بے ساختہ سادہ اور دلچسپ ہے کہ اس سے آگے پڑھنے کو دل چاہتا ہے، ایسی کیفیت میںقاری کی خواہش ایک ہی نشست میں اس کتاب کو پڑھ ڈالنے کی ہوتی ہے، میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، واقعات اتنے خوبصورت اور دلچسپ پیرائے میں بیان کئے گئے ہیں کہ حوالے کے طور پر ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے، چوہدری تہہ درتہہ بات کرنے کے ہنر سے بھی واقف ہیں کتاب کے سرورق پر ہی لکھا ہے’’عدالتی،انتظامی، معاشرتی اور سیاسی طوفانوں سے نبرداآزما ضلعی انتظامیہ کے ایک کہنہ مشق افسر کی سرگزشت‘‘ اگرچہ چوہدری نے جن الفاظ سے کتاب کا آغاز کیا ہے معاملہ اس سے بالکل اْلٹ ہے، یہ کتاب ایک ہیرو کی داستان ِ حیات ہی ہے، یہ نصف صدی کا قصہ نہیں بلکہ کئی زمانوں کے تجربات کا نچوڑ ہے یہ ایک عام آدمی کی نہیں بلکہ بہت خاص آدمی کی کہانی ہے۔قارئین یہ سچ کی نامکمل دستاویز بھی ہرگز نہیں ہے، یہ سچ کی مکمل تصویر ہے، چوہدری شفاعت کا خود کو دانشور، شاعر یا ادیب نہ ماننا بھی ٹھیک نہیں ہے، آپ کتاب کے مطالعہ سے بخوبی اندازہ ہوجائے گا وہ ایک نہایت جہاں دیدہ اور دانش ورشخصیت کے مالک ہیں شاعر یا ادیب کی تمام خصوصیات بھی اْن میں بدرجہ اْتم موجود ہیں، اگرچہ سیاستدان اور بزنس مین نہیں ہیں لیکن دونوں پر گہری نظر اور مشاہدہ رکھتے ہی، چوہدری شفاعت نے کرونا کے دِنوں کو گھر میں فارغ بیٹھ کر ضائع نہیں کیا بلکہ ایسی خوبصورت اور زندگی سے بھرپور تحریر کا تحفہ ہمارے ہاتھوں میں تھما دیا ہے یہ ایک دوسرا روشن پہلو ہے کہ آپ اپنے وقت کا بہترین استعمال کیسے کرتے ہیں۔ مجھے کتاب کے انتساب نے بھی بہت متاثر کیا ہے، اپنی مرحومہ اہلیہ کے نام انتساب میں لکھتے ہیں ’’جودیانت، سادگی، سخاوت، ایثار اور معصومیت کا پیکر تھیں‘‘ یہ اپنی رفیق کارسے خلوص و محبت کی مکمل داستان ہے جو ایک چھوٹے سے جملے میں سما گئی ہے۔ آخری صفحات میں لکھتے ہیں کہ اجلے من کی خاتون تھیں اْس کا دل جیسے سونے کا ہو، مشکل گھڑی میں بھی مسکرا سکتی تھیں اپنے بچوں کو کبھی اپنے دْکھ تکلیف سے پریشان نہیں کیا۔‘‘
تصویری حصہ کتاب کی شان و شوکت کو دوبالا کردیتا ہے اور یہ تصویریں اپنی ایک الگ کہانی سناتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ المختصر یہ ایک ہیرو کے حالاتِ زندگی کی سچی، کھری اور دلنشیں داستانِ حیات ہے۔