لاہور ٹول پلازہ کے آگے شدید دھند کے باعث لاہور ملتان موٹر وے بند جبکہ اسلام آباد والا کھلا تھا۔ وقت صبح ساڑھے نو کا ہوگا ۔میں نے موٹر وے کھلنے کا انتظار کرنے کے بجائے شرقپور دھوکہ منڈی روڈ سے اپنے گائوں جانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں سے موٹروے کی نسبت فاصلہ تھوڑا سا زیادہ ہے۔ موٹر وے سے اتر کر شرقپور روڈ پرآیا ہی تھاکہ ایک پولیس والے پر نظر پڑی۔ میں اکیلا جارہا تھا۔ اس نے لفٹ کیلئے اشارہ نہیں کیا ۔ مجھے لگا وہ ویگن ،بس کا منتظر ہے۔ میں نے گاڑی روک کراسے ساتھ بٹھا لیا۔ اس نے وردی پر سردی سے بچنے کیلئے چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ سفر کے دوران گانے وغیرہ سننے کے بجائے میں عموماً سیاسی تبصروں پر مبنی ویڈیوز ڈائون لوڈ کر کے سنتا ہوں۔ یہ صاحب ساتھ بیٹھے تو ان سے گپ شپ ہونے لگی۔ یہ پولیس میں سپاہی تھے۔ سروس 33 سال عمر54 سال اور تنخواہ اس نے 56 ہزار بتائی۔ لاہور کے کسی تھانے میں تعینات ہے۔ چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کے بعد اتنے ہی گھنٹے ریسٹ یا آف ۔ وہ اس ریسٹ میں اپنے گائوں چلا جاتا ہے۔ جو اسکے جائے ڈیوٹی سے سو کلومیٹر ہے۔ وردی والوں کا بسوں، ویگنوں والے احترام کرتے ہیں اور پولیس والے تو ویسے بھی احترام کرانا جانتے ہیں۔ لہٰذا کرائے کا فکر نہیں ہوتا۔دس جماعتیں پاس ہونے میں ایک کی کسر رہ گئی تھی۔ ترقی کیلئے پیپر دیئے نہیں یا کچھ آتا نہیں تھا۔ وہ اسی پرقانع تھا، حال مست۔ اس نے اپنے محکمے کی برائی کی نہ کسی سیاسی وابستگی کا اظہار۔ جس حال میں تھا خوش اور اللہ کا شکر ادا کررہا تھا۔جس بھی پولیس والے سے بات ملاقات ہوئی اس نے یہی بتایا ’’باقی تورشوت لیتے ہیں میں نہیں‘‘۔ جمال الدین طغرل(فرضی نام) سے بھی پوچھا تو اس نے کہا میں روڈ کرپشن نہیں کرتا اور خود کی وضاحت کردی کہ کسی گاڑی، بائیک کو روک کر کبھی پیسے نہیں لئے۔ استاد نے ٹریننگ کے دوران کہا تھا ریڑھی والوں کو تنگ نہ کرنا، ان سے جو بھی لو اس کو اسکی خرید کے مطابق پیسے ضرور دے دو۔۔۔ البتہ ریڈ کے دوران انچارج سے وصولی میں لے لیتا ہوں۔ وہ پیسے کبھی بچوں اور گھر میں خرچ نہیں کئے۔ زیادہ سے زیادہ کتنا حصہ وصول کیا؟ میرے پوچھنے پر اس نے دو ہزار بتایا۔ باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ اچھی بیوی گھر کو سکھی رکھتی ہے۔ وہ کیسے؟۔ میرے 6 بچے ہیں، 4 بیٹیاں دو بیٹے ۔ بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادی کی تیاری ہورہی تھی۔ سات آٹھ لاکھ روپے تو لگنے ہی تھے مگر اتنی رقم پاس نہیں تھی۔ میں نے بیٹے کو ایک روز ساتھ لیا اور رشتہ داروں سے ادھار لینے چل پڑا۔ بیوی نے آواز دے کر دروازے سے واپس بلا لیا اور ہمیں گائوں میں ہی اپنے والدین کے گھر لے گئی۔ ایک کمرے میں جہیز کا سارا سامان پڑا تھا۔ اس نیک بخت نے تنخواہ سے بچت کرکے خریدا تھا۔ مجھے فرنیچر اور دیگر کچھ اخراجات کیلئے ایک لاکھ روپے قرض لینا پڑا۔ اس سے پوچھا کبھی پولیس مقابلہ بھی کیا۔ اس نے بتایا ایک بار کیا تھا۔ گلبرگ میں ایک کوٹھی میں ڈاکو گھس گئے، مرد اپنے کام پر جاچکے تھے۔ ڈاکوئوں نے بچوں اور خواتین کو باندھنا شروع کردیا اوپر منزل سے لڑکے نے دیکھا تو عقب سے اتر کر ساتھ ہی پولیس چوکی میں آگیا۔ کال چل گئی۔ ہم فوری طور پر دس پولیس والے کوٹھی پہنچ گئے۔ ڈاکوئوں کو بھی شک گزرا ایک نے راہ فرار اختیار کرلی۔ لوگ پولیس کے ریڈ سے جمع ہونے لگے ہم کوٹھی میں داخل ہوگئے یک لخت ایک گولی اندر سے کھڑکی کا شیشہ توڑتی ایک ملازم کے اوپر اٹھائے ہاتھ کو چیرتی گزر گئی۔ جواب میں ہم نے ہوائی فائرنگ شروع کردی۔اندر سے آنیوالی دوسری گولی اُسی ملازم کی بیلٹ اور تیسری دل میں لگی۔ سارے ملازم اپنے ساتھی کی طرف لپکے تو اندر سے ڈاکو بھاگ نکلا۔ وہ لنگڑا تھا مگر جان بچانے کیلئے جتنا ممکن تھا تیز بھاگ رہا تھا۔ میں نے اس کا تعاقب کیا۔ لوگ سڑک کے دونوں اطراف کھڑے تھے۔ میری گن میں ایک ہی گولی بچی تھی۔ ڈاکو بھی فائرنگ کرسکتا تھا۔ میں نے بہرحال ٹریگر دبا دیا ۔میرا نشانہ زیادہ پکا نہیں تاہم گولی اس کی پشت میں لگی وہ گرا تو میرے ساتھیوں نے وہی کیا جو کرنا چاہئے تھا۔ دو ماہ بعد اس کا ساتھی بھی پکڑا گیا۔ حاجی عمر ورک نے اسے بھی انجام تک پہنچا دیا ہوگا۔ ہمارا ساتھی اس دن ہسپتال میں شہید ہوگیا۔ اسکی باتوں کے دوران پولیس کی گاڑی گزری تو اس نے کہا ننکانہ صاحب میں ڈی پی او اسمٰعیل خٹک نے پولیس کو بڑا چوکس کررکھا ہے۔اس پر میں چونک گیا کیونکہ گائوں سے گھر والے ہمیں شام کے بعد سفر کرنے سے منع کرتے ہیں۔موٹر وے ہمارے گائوں سے دس کلو میٹر ہے ۔اعجاز شاہ صاحب کے اور ہمارے گائوں کے درمیان رات کے پہلے پہر گاڑیوں کو لوٹا جاتا رہا ہے۔واردات کے بعدپولیس ’’چوکس‘‘ہوجاتی ہے۔باتوں میں سفر کٹ گیا۔اس نے مزید آگے جانا تھا اور مجھے اپنے گائوں کی طرف مڑنا تھا۔اس موڑ پر بڑے کپوں میں ہم نے گُڑ والی چائے پی ۔دھوکہ منڈی(منڈی فیض آباد)سے آدھا گھنٹہ قبل کینو خرید کرکھا چکے تھے۔
گائوں میں دیگر مصروفیات کے علاوہ کھیت میں گیا‘ جہاں سبزیاں لگا رکھی ہیں جو گھرمیں خود کھانے کیساتھ منڈی میں لے جائی جاتی ہیں۔ زمیندار کسان پہلے صرف روایتی فصلیں چاول، گندم، گنا کاشت کرتے تھے اب دیگر فصلوں خصوصاً سبزیوں کی کاشت بھی ہونے لگی ہے۔ دھند کے دنوں میں سبزیاں ٹکے ٹوکری ہوجاتی ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ بے وقعت۔ آج کل گوبھی کا سیزن ہے۔ شروع میں اس کی مانگ بہت زیادہ تھی۔ ہمارے ساتھی شاہ نواز تارڑ بتا رہے تھے کہ انکے علاقے میں تین ایکڑ بند گوبھی کا ریٹ 45 لاکھ روپے لگایا گیا۔ زمیندار نے انکار کردیا اگلے دن 35 لاکھ تو بھی زمیندار نہ مانا تیس اور پچیس پر بھی انکاری رہا۔ چند دنوں بعدپندرہ ہزار میں بھی کوئی خریدنے والا نہیں تھا۔ 45 لاکھ میں بیچتا تو اسکے وارے نیارے اور بیوپاری ڈوب جاتا۔
ہمارے علاقے میں گوبھی کے فی ایکڑ نرخ ڈیڑھ لاکھ سے 75 ہزار پر آگئے۔ چھوٹے کاشتکار اپنی سبزیاں خود منڈی لے جاتے ہیں۔ دھند کے دنوں منڈی میں بدترین مندا ہوجاتاہے۔ میرابھتیجا حمزہ بھی سبزی منڈی لے جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ دھند کے دنوں میں آڑھتی نے اسے گوبھی کی ڈھیریاں 5 روپے فی ڈھیری لے جانے کو کہا۔ ایک ڈھیری میں دس بارہ پھول اور پھول کا وزن ڈیڑھ سے دو کلو تک ہوتا ہے۔ جب کوئی بولی ہی نہ دے تو سبزی یا پھل کے نرخ ایسے ہی گر جاتے ہیں۔ کسان واپسی کے خرچے اور کرائے سے بچنے کیلئے وہیں چھوڑ دیتا ہے۔ حمزہ نے ایک ڈھیری اٹھا لی جس کی اسے خاص ضرورت نہیں تھی۔ آڑھتی نے پانچ روپے بھی کہا رہنے دو۔
لاہور میں کل بازار میں رکشے پر سبزی فروش گوبھی دس روپے کلو کا سپیکر پر اعلان کر رہا تھا۔ آج ایکسپورٹ کوالٹی کا سیب ریڑھیوں‘ رکشوں پر ایک سو روپے کلو دستیاب ہے۔ کینو 60 سے سو روپے درجن۔ کیلا 25 روپے درجن بھی مل رہا ہے۔ لاہور میں جو شخص 25 روپے درجن کیلا فروخت کرتا ہے‘ وہ اپنے گھر سے نہیں منڈی سے لاتا ہے۔ منڈی میں کسی اور شہر سے آتا ہے۔ کسان کو کتنی بچت ہوتی ہوگی۔ ہمارے شعبے میں سلیم اختر شیخ صاحب کا تعلق میرپور خاص سے ہے۔ وہ بتا رہے تھے ۔ایک کسان سٹیشن پر کیلے کا ٹوکرا لایا۔ اس نے 100 روپے 100 روپے کی بولی لگائی۔ کوئی نہ آیا تو 50 اور پھر 20 روپے اور آخر میں دس روپے پر آگیا۔ کل سندھ میں کسانوں سے ٹماٹر دس روپے کلو خریدے جارہے تھے اوپر سے حکومت نے درآمد بھی کرلئے۔سندھ کے کچھ کسانوں نے کھڑی فصل پر ٹریکٹر چلا دیئے۔ مہنگائی کا رونا اپنی جگہ‘ اسکے ذمہ دار کون ہیں۔ کسان کو تو کبھی تھوڑا منافع اور کبھی لاگت پوری ہوتی ہے۔ کبھی خسارہ بھی ہو جاتا ہے۔ ہماری حکومتوں کی خوش قسمتی ہے کہ کسان متحد نہیں ہیں۔ جس دن متحد ہو گئے تو خسارے کا سودا نہیں کرینگے۔ ریاست انہیں بھی ماں کی نظر سے دیکھے۔ بھارت میں کسان متحد ہوئے ہیں تو ریاست کو ماں کے بجائے نانی یاد کرا دی۔ دو لاکھ ٹریکٹروں کا جلوس اور وہ بھی دارالحکومت دہلی میں۔ بھارتی کسانوں نے دنیا بھر کے کسانوں کو اتحاد کا پیغام دیا ہے۔ایک اور دلخراش خبر بھی دیکھی ہے۔کراچی کے نجی ہسپتال میں زخمی حالت میں لائی جانے والی لڑکی کو طبی امداد دینے کے بجائے ہسپتال انتظامیہ نے پہلے پیسوں کا مطالبہ کیااور اس دوارن تاخیر کی وجہ سے لڑکی جاں بحق ہوگئی۔ نازیہ گھر کے قریب موٹرسائیکل میں دوپٹہ آنے سے گرگئی تھی۔ اسے سچل گوٹھ میں ہی میمن ہسپتال لے جایا گیا تھا انتظامیہ نے پہلے تین لاکھ روپے جمع کروانے کو کہا۔ایک گھنٹے تک طبی امداد نہ ملنے پر اس کا بھائی نازیہ کو وہاں سے لے جانے لگا تو ہسپتال نے 15 ہزار روپے کا بل پکڑاتے ہوئے کہا کہ یہ ادا کرنے کے بعد ہی یہاں سے جاسکے گا۔ بعدازاں نازیہ کو سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر لایا گیا جہاں پر ڈاکٹروں نے کہا کہ اگر اسے وقت پر طبی امداد دی جاتی تو اسکی جان بچ سکتی تھی۔اس خبر نے دہلا کر رکھ دیا جس سے امریکہ کا جان ہوپکنز ہسپتالوں کا سلسلہ یاد آگیا۔ بالٹی مور کے ایک اسی سلسلے کے ہسپتال میں ضمیر شاہ نام کے ایک پاکستانی کو لایا گیا۔میجر نذیر اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں۔ ڈاکٹر نے اسے ہوش میں لائے ۔ اسکے ٹیسٹ ہوئے۔ علاج شروع ہو گیا۔ دل کا مسئلہ تھا۔ چند دن بعد اسے ڈسچارج کیا تو اسکے سامنے 7 ہزار ڈالر کا بل رکھ دیا گیا جسے دیکھ کر وہ ایک بار پھر دل کے دورے سے دوچار ہوا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے معالج ڈاکٹر سے غربت کا تذکرہ کیا۔ اس نے بل پکڑا اپنی فیس ختم کر دی۔ دیگر کئی ٹیسٹوں کے اخراجات بھی منہا کر دیئے۔ ضمیر شاہ صاحب باقی کی ادائیگی سے بھی قاصر تھے۔ ڈاکٹر کو بتایا گیا تو اس نے بل پر لکھ دیا
To be Ppaid by State
اور باقی اخراجات امریکی ریاست نے ادا کئے۔ مریض ڈاکٹر کے رویئے سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے پنجابی والی انگریزی میں پوچھا۔
ڈاکٹر صاحب آریو … ڈاکٹر نے کہا میرا مذہب انسانیت ہے۔
اب ذرا جان ہوپکنز ہستالوںکے سلسلے کی ابتدا کا بھی سن لیں۔ اس کا مالک آرکیٹکٹ تھا۔ اس کی تعمیر کردہ عمارت کا ایک حصہ کچھ لوگوں پر گر گیا۔ ان کو ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ انجینئر شدید صدمے سے دوچار ہوا۔ اس نے خودکشی کا سوچا ہوگا‘ تاہم اپنے ضمیر کے اطمینان کی خاطر ٹرسٹ ہسپتال بنانے کا فیصلہ کرکے اس پر عمل بھی کرایا۔ یہ ہسپتال دنیا کے چند بہترین ہسپتالوں میں سے ہیں۔ میری لینڈ امریکا کے ہوپکنز ہسپتال میں امریکی صدور، عرب شاہی خاندان اپنا علاج کرواتے ہیں۔ ان ہسپتالوں میں مستحق افراد کا علاج فری ہوتا ہے۔