حکمتِ صالحین

Jan 30, 2021

رضا الدین صدیقی

حضرت ابوبکر ورّاق رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں ’’انسان تین طرح کے ہوتے ہیں، علماء ، امراء ،فقراء جب علماء خراب ہوجاتے ہیں توخلق کے طاعت اوراحکام تباہ ہوجاتے ہیں ،جب امراء خراب ہوجاتے ہیں تو لوگوں کی معیشت تباہ وبرباد ہوجاتی ہے اورجب فقراء خراب ہوجاتے ہیں تو لوگوں کے اخلاق بگڑجاتے ہیں‘‘۔’’مخدوم سید علی بن عثمان الہجویری رحمۃ اللہ علیہ اس قول کی تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ‘‘۔ امراء وسلاطین کی خرابی ظلم وستم ، علماء کی حرص وطمع اورفقراء کی خرابی جاہ ومنصب کی آرزو میں رونما ہوتی ہے۔جب تک حکمران (مخلص وبے لوث )اہل علم منہ نہ موڑیں تباہ وخراب نہیں ہوتے ۔جب تک علماء حکمرانوں کی بے جا (صحبت اورچابلوسی) سے اجتناب کریں خراب وبرباد نہیںہوتے اورجب تک فقراء (معلمین اخلاق) میں جاہ وحشم کی خواہش پیدا نہیں ہوتی تباہ وخراب نہیں ہوتے اس لئے کہ حکمرانوں میں ظلم بے عملی کی وجہ سے علماء میں لالچ بددیانتی کی وجہ سے اورفقراء میں جاہ وحشم کی خواہش بے توکلی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا بے علم حکمران ،بددیانت علماء اوربے توکل فقیر بہت برے ہوتے ہیں۔ عام لوگوں میں خرابیوں کا ظہوراور برائیوں کا صدور ان ہی تین گروہوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ 
حضرت ابوسعید عیسی خرازی ؒارشادفرماتے ہیں، ’’جناب رسالت مآب ﷺکی حدیث کی مطابق اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کے دل کو اس خاصیت پر پیدا کیا ہے کہ جو اس پر احسان کرتا ہے انسان کا دل محبت کے ساتھ اس کی طرف مائل ہوتا ہے ، مجھے ایسے دل پر تعجب ہوتا ہے جو یہ دیکھنے کے باوجود کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سواء کوئی احسان کرنے والانہیں ہے، خلوص کے ساتھ، اپنے رب کریم کی طرف مائل نہیں ہوتا۔
حضرت مخدوم علیہ الرحمۃ اس قول کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ وہی احسان کرتا ہے جو جانوں کا حقیقی مالک ہو۔احسان کی تعریف یہ ہے کہ حاجت مندکے ساتھ بھلائی کی جائے اورجو خود دوسرے کا احسان مند ہے وہ بھلاکسی دوسرے پر کیا احسان کرے گا؟چونکہ حقیقی ملکیت اورحقیقی بادشاہت اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کو حاصل ہے اورصرف وہی ایک ذات ایسی ہے ،جو کسی دوسرے کے احسان سے بے نیاز ہے جب اللہ رب العزت کے دانا اوربینا بندے اپنے منعم اورمحسن پروردگار کے اس معنی کو دیکھتے اورسمجھتے ہیں تو انکے صاف اورپاکیزہ دل اسکی محبت سے لبریز ہو جاتے ہیں اوروہ اللہ کے ہر غیر سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔

مزیدخبریں