وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے ڈینیئل پرل کیس کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن انہوں نے ملزم کی حوالگی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نئے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی جے بلنکن سے ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ ان سے اچھی گفتگو ہوئی اور ہم نے فیصلہ کیا ہے آنے والے دنوں میں مزید گفتگو کے ذریعے مشترکہ خواہشات اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔میڈیا سے گفتگو میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میں نے امریکی ہم منصب سے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ اس خطے میں امن و استحکام ہو اور ہماری ترجیح ہے کہ پاکستان کی معاشی مشکلات پر ہم غلبہ پائیں، اس ملک میں خوشحالی اور سرمایہ کاری ہو۔انہوں نے ڈینیئل پرل کیس کے حال ہی میں آنے والے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ حال ہی میں ایک فیصلہ آیا جس پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی جے بلنکن نے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ملزم عمر شیخ نے اعتراف جرم کیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ امریکا کے ایک نامور مشہور صحافی ڈینیئل پرل کے جرم میں وہ ملوث ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ڈینیئل پرل کے خاندان کو انصاف ملنا چاہیے اور ہماری بھی خواہش یہی ہے کہ قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے انہیں انصاف ملنا چاہیے۔امریکا کی جانب سے عمر شیخ کی حوالگی کے مطالبے کے حوالے سے سوال پر شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ امریکا نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں نے انہیں بتایا کہ صوبہ سندھ کی حکومت نے وفاق سے مشاورت کے بعد فوری طور پر نظرثانی درخواست دائر کی ہے اور اس درخواست کے ذریعے وہ چاہتے ہیں سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف پیشرفت کی ہے، دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خلاف ہم نے اپنے علاقوں کو صاف کیا ہے اور ہمیں ان ہزاروں خاندانوں کا احساس ہے جو اس سے متاثر ہوئے ہیں۔بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اپنا کردار کر چکا اور ادا کررہا ہے، یہ مذاکرات آسان کبھی نہ تھے، دو فریق آپس میں دست و گریباں رہے ہیں، اعتماد کا فقدان بھی رہا ہے لیکن بتدریج پیشرفت ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ یہ تاریخی اور سنہری موقع ہے اور اس کو ضائع نہ کریں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہماری حکومت آنے سے پہلے مسلم لیگ(ن) کے دور میں پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف)کی گرے لسٹ میں شامل ہو گیا تھا کیونکہ دنیا سمجھتی تھی ہمیں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے جو اقدامات کرنے چاہیے تھے، وہ ناکافی ہیں، ہماری حکومت نے آ کر اس پر ٹھوس اقدامات کیے ہیں اور 27 نکات پر پیشرفت ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس حکومت نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو چیک کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں اور اس میں دفتر خارجہ، وزارت خزانہ اور ان کے ایف ایم یو یونٹ کے ساتھ مل کر کوشش کرتا ہے اور ہماری کوشش ہو گی کہ ان لعنتوں سے پاکستان کو چھٹکارا مل سکے۔ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کی ڈس انفو لیب کے انکشافات سب کے سامنے ہیں اور اس میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے 15سالوں میں ہندوستان نے من گھڑت خبروں، جھوٹی، جعلی این جی اوز، جعلی ویب ویب سائٹس اور پارلیمانی گروپس کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے جو پراپیگنڈا کیا وہ آپ کے سامنے ہے اور اپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، اس پر وہ بے نقاب ہو چکے ہیں اور اس پر میں نے پریس کانفرنس بھی کی تھی۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ برسلز میں یورپیئن پارلیمنٹ کے اراکین کو یورپی یونین ڈس انفو لیب کے انکشافات پر بریفنگ دی گئی ہے، مجھے امید ہے کہ اس پر ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کرپشن کو روکنا عمران خان کی حکومت کی ترجیحات میں سے ایک ترجیح ہے، ہر سطح اور ہر فورم پر اس کا مقابلہ کیا جا رہا ہے اور جو لوگ اس کے ذمے دار ہیں ان کو بے نقاب کیا جا رہا ہے، ان سے کوئی رعایت برتی گئی ہے نہ رعایت برتنے کا ارادہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس پر قابو پانا ہے کیونکہ تحریک انصاف سمجھتی ہے جب تک کرپشن پر قابو نہیں پایا جائے گا، ملک خوشحالی کی دوڑ میں آگے بڑھ نہیں سکتا، اگر پاکستان کے ٹیکس ادا کرنے والوں کا پیسہ ذاتی تجوریوں میں منتقل ہو جائے اور پھر ان تجوریوں سے منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر منتقل ہو جائے تو اس سے ملک میں غربت بڑھے گی اور خوشحالی نہیں آئے گی۔انہوں نے کہا کہ پچھلے دنوں سرکاری املاک پر قبضے کرنے والے بہت سے بااثر افراد سے زمین واگزار کرانے کے لیے حکومت پنجاب نے ٹھوس کارروائی کی ہے۔پیپلز پارٹی کی جانب سے متوقع طور پر یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ کے لیے کھڑا کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ وہ منتخب ہو پاتے ہیں یا نہیں، پنجاب سے انہوں نے منتخب ہونا ہے تو پیپلز پارٹی کے پاس سینیٹرز منتخب کرانے کے لیے تعداد نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو سندھ سے لڑائیں گے یا پنجاب میں خرید و فروخت کریں گے، اگر وہ سینیٹر منتخب ہو جاتے ہیں تو ہی چیئرمین کے لیے امیدوار ہو سکتے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں تو پہلے بھی شک و شبہ نہیں تھا کہ استعفے دینے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا نہ ہے، سندھ کی حکومت بالکل نہیں چھوڑیں گے، اب کہا جا رہا ہے کہ مناسب وقت پر دیں گے تو مناسب وقت کونسا ہو گا، میں سمجھتا ہوں کہ مناسب وقت 2023 ہے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم مافیاز کے خلاف ہیں اور یہ ہماری واضح پالیسی ہے، اس حکومت نے ان مافیاز کو بے نقاب بھی کیا ہے، ان کے خلاف کارروائی بھی کی ہے، کمیشن بھی بنائے ہیں، انکوائری کی ہے اور ان انکوائریز پر عملدرآمد ہو رہا ہے.