گورنر پنجاب چودھری محمد سرور ان دنوں اپنے بیانات کی وجہ سے خبروں میں ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ عام آدمی کے بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے پریشان ہیں، ملک پر بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط نے بھی انہیں پریشان کر رکھا ہے۔ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور ایسا ہے کہ ان کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور وہ عام آدمی کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہرحال ان کے گذرے ہوئے چند ہفتوں کے بیانات کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ چودھری صاحب کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اب حالات اجازت دیتے ہیں یا نہیں موقع ملتا ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن وہ اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلا رہے ہیں۔
گذشتہ ماہ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف نے چھ ارب ڈالر قرض کے بدلے ہمارا سب کچھ لکھوا لیا ہے، دو ارب ڈالر سالانہ ملیں گے جو امداد نہیں قرض ہوگا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کے اس بیان کے بعد ملکی سیاست میں بھونچال آیا چونکہ پاکستان تحریکِ انصاف کی انتخابی مہم آئی ایم ایف مخالف رہی ہے یہی وجہ تھی کہ چودھری محمد سرور کے اس بیان کو بہت سنجیدہ لیا گیا، اپوزیشن کے لیے حکومت پر حملوں کا موقع بھی پیدا ہوا جبکہ عوامی سطح پر اس بیان کو بہت پسند کیا گیا کیونکہ آئی ایم ایف قرضوں کے حوالے سے حکومت نے عوام کو اندھیرے میں رکھا لیکن گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے حقیقت بیان کر دی۔ بنیادی طور پر یہ ہر درد مند پاکستانی کی آواز ہے کیونکہ جن شرائط پر عالمی مالیاتی ادارے سے پاکستان کو قرض مل رہا ہے اس کا سارا بوجھ عام آدمی برداشت کر رہا ہے۔ مہنگائی کی ہر دوسری لہر کے پیچھے آئی ایم ایف کی شرائط نظر آتی ہیں۔
آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے لگ بھگ چار سو ارب کے لگ بھگ اضافی ٹیکس اور ملک کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں دو سو ارب روپے کٹوتی شامل ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے سے قرض ان شرائط پر ملا ہے کہ ملک میں سیلز ٹیکس پر دی گئی چھوٹ ختم کر دی جائے۔ اس چھوٹ کے ختم ہونے کے بعد اِن ڈائریکٹ ٹیکس اکٹھا کیا جاتا ہے اس عمل کے نتیجے میں مختلف مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے یوں یہ اضافی بوجھ عام آدمی پر آتا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط تصویر کا ایک رخ ہے جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ حکومتیں نظام کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات میں ناکام رہتی ہیں۔ کوئی بہتر طویل المدتی منصوبہ نہیں ہوتا نتیجتاً مختصر وقت میں اہداف حاصل کرنے کے لیے بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے اور بوجھ عام آدمی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے قرض لیا جاتا ہے پھر قرض اتارنے کی وجہ سے قرض لیا جاتا ہے پھر نظام کو چلانے کے لیے بھی قرض لیا جاتا ہے لیکن آئی یم ایف کے چنگل سے کیسے نکلنا ہے حکمران آج تک اس بارے کچھ نہیں کر سکے۔ اب تو سٹیٹ بینک کے حوالے سے بھی بہت خطرناک باتیں سننے کو ملی ہیں شاید یہی وجہ تھی کہ گورنر پنجاب نے بیرون ملک ہی سہی لیکن دل کی بات ضرور کہہ دی۔ اگر یہ بات اپوزیشن کی طرف سے آتی تو حکومتی ترجمان باجماعت اس کہ تردید کرتے اور جواب میں حزب اختلاف کو تنقید کا نشانہ بناتے لیکن اپنے ہی گورنر کی طرف سے اس اعتراف کے بعد کسی کے پاس کوئی جواز نہیں تھا۔ بہرحال چودھری محمد سرور نے عوامی جذبات کی ترجمانی کی۔
چند روز بعد گورنر پنجاب چودھری محمد سرور ایک مرتبہ پھر خبروں میں آئے جب انہوں نے یہ کہا کہ "بینظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان کو وزیراعظم میں نے بنوایا ہے گوکہ بعد میں انہوں نے تردید کی لیکن تردید پر توجہ کون دیتا ہے۔ گورنر صاحب کہتے رہے کہ یہ نہیں کہا لیکن تردید سے زیادہ اس بیان کو جگہ ملی۔ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ شہباز شریف سے لڑائی صاف پانی کے معاملہ پر ہوئی لڑائی نہ ہوتی تو ن لیگ نہ چھوڑتا۔ انیس سو ننانوے میں شریف برادران کے ویزے میں نے لگوائے تھے۔ وہ دن دور نہیں جب پورے پنجاب میں پینے کا صاف پانی میسر ہوگا"۔
یہ ساری باتیں بلاوجہ تو نہیں ہیں اصل میں چودھری صاحب کو قیادت کے لیے تیار رہنا چاہیے، انہیں باہر نکلنا ہو گا کیونکہ ان کی جماعت کی حالت بہت خراب ہے جماعت کو سنبھالنے اور متبادل قیادت کے لیے چودھری سرور کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے اپنی فاؤنڈیشن کے ذریعے عوامی فلاح کے کئی منصوبوں پر کام کیا ہے لیکن ایک فاؤنڈیشن کروڑوں لوگوں کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو مسائل کا سامنا ہے یہ مسائل کسی نے باہر سے آ کر تو حل نہیں کرنے یہ کام اپنے لوگوں کو ہی کرنا ہے۔ چودھری صاحب گفتگو کرنے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں، بات چیت کے ذریعے راستہ نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ان دنوں سب سے ضرورت بامعنی اور بامقصد گفتگو کرنے والوں کی ہے۔ چودھری صاحب کا عہدہ ذرا مختلف ہے لیکن اس کے باوجود وہ بہت موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بھی چودھری محمد سرور کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اب گورنر پنجاب نے وزیراعظم عمران خان کی حمایت میں بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی عمران خان کو اقتدار سے نہیں نکال سکتا، وہ دو ہزار تئیس تک وزیراعظم رہیں گے۔ انہوں نے جنوبی پنجاب کے ورکرز کے اعزاز میں ناشتے کا اہتمام کیا۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں کا خیال رکھنا مخدوم خسرو بختیار کی ذمہ داری تھی وہ جنوبی پنجاب محاذ کے صدر تھے لیکن دو ہزار اٹھارہ کے بعد سے جنوب کو بھولے ہوئے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کو بھی گورنر پنجاب یاد کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی آخری ڈیڑھ سال میں نتائج بدلنے کے لیے سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں کو سامنے لاتی ہے یا پھر "بابو سیاست دانوں" سے کام چلانے کی کوشش کرتی ہے۔
ََََََکیا چودھری محمد سرور پریشان ہیں؟؟؟
Jan 30, 2022